پت جھڑ کے شروع ہوتے ہی فضا میں خشکی اور خنکی دونوں بڑھتی جا رہی تھیں۔ کورونا کی عالمی وبا کے باعث زندگی نیم مفلوجی کی سی کیفیت سے دوچار تھی۔
اشتہار
صورتِ حال کافی مایوس کن تھی۔ ایسے میں میری دوست نشو شاہ کا فون کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ ہماری دوستی کئی سال پرانی ہے۔ نشو ایک نیم سرکاری ادارے میں ملازمت کرتی ہے اور اپنے علاقے میں تعلیم کا میعار بڑھانے کے لیے ہمہ تن کوشاں رہتی ہے۔ اس کا فون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
ارے ہاں یہ تو بتانا ہی بھول گئی کہ میری یہ پیاری دوست سہون میں رہتی ہے اور ہمیشہ مجھے اپنے شہر آنے کی دعوت بھی دیتی رہتی ہے۔ حالات اگر اپنے پرانے ڈگر پر ہی ہوتے تو میں شاید میں کبھی یہ فیصلہ نہ لیتی۔ لیکن بوریت سے مجبور ہو کر اس مرتبہ میں نے سہون جانے کی حامی بھر ہی لی۔
آغازِ سفر سے پہلے بہت سوچ بچار کی کہ ان حالات میں سفر کس طرح کرنا ٹھیک رہے گا۔ بہت سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ تمام حفاظتی تدابیر کے ساتھ میں پبلک بس میں سہون جاؤں گی۔ اور پھر یہ سفر شروع ہوا۔ اکیلے ایسے سفر کرتے ہوئے دل میں بہت سے خدشات اور توہمات نے گھر کیا ہوا تھا، جو وقت کے ساتھ ساتھ دور ہوتے گئے۔
بس میں روانگی سے قبل جب ٹکٹ خریدا تو ٹکٹ فروش نے سوال کیا۔ باجی اکیلی ہو؟ میں نے اقرار میں سر ہلایا۔ اس نے قریب کھڑے ایک آدمی کو اشارہ کیا اور کہا کہ باجی کا سامان اٹھا کر بس میں رکھ دو۔ اس نے بھی ایک پل کی دیر نہ لگائی اور جھپٹ کر میرا سامان اٹھا لیا۔ میں اس کے پیچھے بھاگی ۔ ارے رکو! میرا سامان لے کر کہاں جا رہے ہو؟
بس کے پاس پہنچ کر وہ رک گیا۔ اس نے جھک کر میرے سامان پر چاک سے نمبر لکھا اور قدرے بے رخی سے مجھے جواب دیا، '' تمھارا سامان گاڑی میں رکھ رہا ہوں جا کر اندر پہلی سیٹ پر بیٹھ جاؤ۔‘‘سامان گاڑی میں رکھ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ مدد فراہم کرنے کا سب کا اپنا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ میں بس میں بیٹھ گئی اور پھر رختِ سفر بندھ گیا۔ یہ ایک نان اے سی بس تھی اور کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ سامنے کی جانب ایک ٹی وی بھی نصب تھا جس پر ممتاز مولائی کے دل جلے اور مجبور عاشق کی روداد پر مبنی گانے تیز آواز میں بج رہے تھے۔
خواتین کا معیار زندگی: پاکستان بدترین ممالک میں شامل
خواتین، امن اور تحفظ سے متعلق شائع ہونے والے ایک انڈیکس کے مطابق خواتین کے معیار زندگی کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے آٹھ بد ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اس انڈیکس میں صرف شام، افغانستان اور یمن پاکستان سے پیچھے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
خواتین کی فلاح اور ان کی زندگی میں بہتری
جارج ٹاؤن انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں تین مختلف زاویوں سے خواتین کی فلاح اور ان کی زندگی میں بہتری کا تعین لگایا جاتا ہے۔ ان تین زاویوں میں معاشی، سماجی اور سیاسی شمولیت، قانون تک رسائی، اپنے علاقوں، خاندان اور سماجی سطح پر تحفظ کا احساس شامل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
خواتین معاشی طور پر خود مختار نہیں
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر خواتین معاشی طور پر خود مختار نہیں ہیں۔ صرف سات فیصد خواتین کے پاس اپنے ذاتی بینک اکاؤنٹ ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/A. Ali
مردوں اور خواتین میں مساوات کا تناسب کم
جارج ٹاؤن انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 34 ممالک میں انصاف سے متعلق مردوں اور خواتین میں مساوات کا تناسب کم ہوا ہے۔ اس حوالے سے سب سے خراب کارکردگی پاکستان کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum
خواتین کی نوکریاں
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 75 فیصد مردوں کی رائے میں ان کے لیے یہ ناقابل قبول ہے کہ خواتین ایسی نوکری کریں جن سے انہیں کوئی معاوضہ وصول ہو۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
تحفظ کا احساس
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سماجی لحاظ سے پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے احساس میں کچھ حد تک بہتری آئی ہے۔ پاکستانی خواتین کا کہنا تھا کہ وہ شام کے اوقات میں اپنے محلے میں تنہا چلتے ہوئے غیر محفوظ محسوس نہیں کرتیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum
خواتین کے لیے بدترین ممالک
اس اشارعیہ میں خواتین کے حوالے سے بدترین ممالک میں پاکستان کے علاوہ لیبیا، عراق، کانگو، جنوبی سوڈان، شام، افغانستان، وسطی افریقی ریاست شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Zahir
جرمنی کا نمبر اس فہرست میں سترہواں
اس رپورٹ میں دنیا کے 167 ممالک کا جائزہ لیا گیا تھا۔ خواتین کی فلاح اور ان کی معیار زندگی کے لحاظ سے ناروے دنیا کا سب سے بہترین ملک ہے۔ جرمنی کا نمبر اس فہرست میں سترہواں ہے۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
7 تصاویر1 | 7
میں نے بس میں بیٹھے افراد پر ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالی۔ اکثریت ان گانوں سے محظوظ ہو رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں میرے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کی عورت آ کر بیٹھ گئی۔ خدوخال اور پہننے اوڑھنے سے کسی گاؤں کی باسی معلوم ہو رہی تھی۔ اس کے ساتھ ایک بڑی سی کپڑے کی گٹھری بھی تھی جس کو جگہ بنا کر اس نے سیٹ کے نیچے رکھ دیا اور میری طرف مسکرا کر دیکھا۔ ''کہاں جا رہی ہو؟‘‘ اس نے مجھ سے سوال کیا۔ میں نے اس کو بتایا کہ میں سہون جا رہی ہوں۔
اور پھر اس نے مجھے بتایا کہ اس کا تعلق سہون سے قریب ایک شہر بھان سعید آباد سے ہے۔ اس کا نام لچھمی تھا اور وہ کپاس چننے کا کام کرتی تھی۔ لچھمی کے شوہر نے اس کو قریب آٹھ سال پہلے کسی دوسری عورت کے چکر میں چھوڑ دیا تھا۔ اس وقت اس کے سات چھوٹے چھوٹے بچے تھے جن کی مکمل ذمہ داری لچھمی نے خود سنبھال رکھی تھی۔
میں بہت غور سے اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔ اس کا لہجہ اور باتوں کی گہرائی دل کو چھو رہی تھی۔ ''میں نے ہر مشکل سے لڑ کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالا ہے تجھے کیا کیا بتاؤں؟'' اس کی آنکھوں کی گہرائی اور ان میں بھرے آنسو شاید اس بات کے گواہ تھے کہ زندگی کی اس لڑائی میں وہ اکیلی بہت محازوں پر بے جگری سے لڑی ہے۔
کراچی سے سہون کا راستہ بہت ہرا بھرا تو نہیں ہے لیکن بڑا ہی پرسکون ہے۔ راستے بھر اطراف میں چٹیل میدان آتے رہتے ہیں اور سہون کے قریب پہنچتے ہوئے پہاڑوں اور ٹیلوں کا ایک خوبصورت سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو آپ کو اپنےساتھ لے کر ہی سہون پہنچتا ہے۔ سہون آ گیا تھا۔ میں نے لچھمی کو الوداع کہا اور بس سے اتر گئی۔
کچھ دور ہی ایک موٹر سائیکل رکشے میں نشو میری منتظر تھی۔ اتنے عرصے کی بوریت اور اتنی طویل مسافت کے بعد اپنی پیاری سہیلی کو دیکھ کر شائد ساری تھکن زائل ہو چکی تھی۔ سماجی فاصلے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے گلے ملنے کا ارادہ ترک کیا اور اچک کر رکشے بیٹھ گئی۔ کراچی کی نسبت سہون میں کافی گرمی تھی۔
رکشہ شاہراہ سے اندرونِ شہر کی طرف مڑ گیا تھا۔ اس شہر میں سکون کا عنصر بہت واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا تھا۔ بڑے شہروں کی نسبت یہاں بھیڑ بھاڑ، شور و غل کم دیکھنے کو ملا۔ ادھر ادھر لوگ اپنی دھن اور اپنے کام میں مگن نظر آئے۔ نشو نے بتایا کہ یہاں سب سے زیادہ رش شہباز قلندر کے میلے میں ہوتا ہے۔ دنیا بھر سے زائرین یہ میلہ دیکھنے آتے ہیں۔ رکشہ تنگ گلیوں سے گزرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔
اچانک سماں تھوڑا بدل سا گیا۔ ڈھول پیٹنے کی آوازیں، بریانی کی خوشبو، لال شربت کی سبیلیں نظر آنے لگیں۔ پتا چلا کہ ہم حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ منظر بڑا اچھوتا تھا لیکن میرا تھکن اور بھوک سے برا حال تھا۔ اس لیے سیدھا گھر پہنچنے کی ٹھان لی۔ اس سے تھوڑا ہی آگے نشو کا گھر تھا۔
رکشہ گھر کے احاطے میں داخل ہو گیا تھا۔ میرے حساب میں یہ گھر کم اور ایک چھوٹی سی کالونی زیادہ تھی۔ رکشہ بدستور آہستہ آہستہ چل رہا تھا اور میں دیکھ رہی تھی کہ گھر کےبیرونی اطراف میں ہوٹل اور دکانیں اور اندر بیٹھک، بڑی سی کار پارکنگ، آبائی قبرستان اور راہداریوں اور کمروں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ رکشہ رک گیا تھا۔
ہم رکشے سے اترے اور ایک راہداری میں اندر کی جانب چل پڑے۔ نشو نے مجھے اپنا کمرہ دکھایا اور کہا ،''تم اسی کمرے میں میرے ساتھ رہوگی ۔‘' تھوڑی دیر میں دسترخوان بھی بچھ گیا۔ ''آج کھانے میں بھنڈی کی سبزی ، دال اور روٹی بنی ہے۔ تم کو ضرور پسند آئے گی۔'' منہ ہاتھ دھو کر جب دسترخوان پر آئی تو بھوک بھی خوب چمک چکی تھی۔
ہم نے مزے لے لے کر کھانا کھایا۔ واقعی اتنے مزے کی دال اور بھنڈی میں نے شاید پہلے نہ کھائی تھی۔ تھکن اور پیٹ بھر کر کھانے کے باعث مجھ پر شدید نیند کا غلبہ طاری ہوگیا۔ میں فورا ہی نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔
جب آنکھ کھلی تو اندھیرا ہوچکا تھا۔ نشو اور اس کی بہنیں میرے ارد گرد ہی بیٹھیں تھیں۔ "اٹھ گئیں باجی؟ میں بس جلدی سے آپ کے لئے چائے بنا کر لاتی ہوں۔" اور پھر آن کی آن میں چائے بھی حاضر ہوگئی۔
اتنے پیارے سیدھے سادھے لوگوں کے درمیان دل بہت خوش تھا۔ ان کا بس ہی نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح مجھے خوش سے خوش تر رکھ سکیں۔ اور بس پھر بجلی چلی گئی۔ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ کیا ہوگا کہ اتنے میں باہر سے آواز آئی کہ صحن میں چارپا ئیاں بچھا دی گئیں ہیں اور پردے کا بھی بندوبست ہوگیا ہے۔ ہم سب چائے لے کر باہر آگئے۔ یہ صحن محض صحن کا مصرف نہیں اداکر رہا تھا بلکہ یہ تو اس گھر کی ثقافت میں اہم کردار ادا کر رہا تھا۔
گھر کا یہ حصہ خواتین کے لیے ہی مختص تھا ۔ یہ ان کا باورچی خانہ، آرٹ اسٹوڈیو، تھیٹر، سنیما سب کچھ تھا۔ ایک طرف کھانا پک رہا تھا۔ خواتین چولہے کے پاس نیچے بیٹھی کھانا پکانے اور باتوں میں مگن تھیں۔ دوسری طرف بچیاں گانے گا کر کے ایک دوسرے کو محظوظ کر رہیں تھیں۔ تاروں بھری رات میں یہ دلکش مناظر دل کو بہت لبھا رہے تھے۔
پاکستانی خواتین: روزگار اور مواقع
پاکستان کی آبادی میں مردوں کا تناسب اکاون فیصد اور خواتین کا تناسب انچاس فیصد ہے لیکن روزگار کی ملکی منڈی میں خواتین کی تعداد مردوں سے نصف ہے۔ پاکستان کی ملازمت پیشہ یا اپنا کوئی کام کرنے والی خواتین کے چہرے:
تصویر: DW/I. Jabeen
پہلی ٹرک ڈرائیور شمیم اختر
پیدائشی طور پر گوجرانوالہ اور آج کل راولپنڈی کی رہائشی شمیم اختر پاکستان کی پہلی ٹرک ڈرائیور خاتون ہیں۔ چون سالہ شمیم مالی مجبوریوں کی وجہ سے مال بردار ٹرک کی ڈرائیور بنیں حالانکہ اس شعبے میں ڈرائیونگ صرف مردوں کا پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے چند بڑے شہروں میں خواتین ٹیکسیاں اور رکشے بھی چلاتی ہیں لیکن مرد ڈرائیوروں کے مقابلے میں ان کا تناسب انتہائی کم ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ترقیاتی شعبے میں خدمات
اسلام آباد کی رہنے والی سیدہ مجیبہ بتول گزشتہ سولہ برسوں سے ترقیاتی شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ وہ کئی بین الاقوامی غیر حکومتی تنظیموں کے لیے کام کر چکی ہیں اور اس وقت ترقیاتی شعبے میں انتظامی امور کے ایک مشاورتی ادارے کی اعلیٰ عہدیدار ہیں۔ مجیبہ کی طرح بہت سی دیگر پاکستانی خواتین بھی غیر حکومتی ترقیاتی شعبے میں کام کرتی ہیں لیکن مردوں کے مقابلے میں اس شعبے میں بھی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔
تصویر: Mujeebah Batool
سڑکوں سے کوڑے کرکٹ کی صفائی
چھپن سالہ شاہدہ شموئیل کو اسلام آباد میں سڑکوں پر صفائی کرتے برسوں گزر چکے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں ترقیاتی امور کے نگران ادارے سی ڈی اے کی ملازمہ ہیں۔ شاہدہ کا کہنا ہے کہ ان کے آٹھ بچے ہیں جن میں سے چند شادی شدہ بھی ہیں لیکن خود شاہدہ کا مالی طور پر ان کی تنخواہ میں گزارہ مہنگائی کی وجہ سے ناممکن ہو چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
خواتین قیدیوں کی مدد
فوزیہ خالد ایک ماہر نفسیات ہیں، جو خواتین کی بہبود کے شعبے میں خاص طور پر ایسی عورتوں پر توجہ دیتی ہیں، جن پر پاکستانی معاشرے میں سب سے کم دھیان دیا جاتا ہے۔ فوزیہ جیلوں میں بے سہارا خواتین کی مدد کرنے والے ایک نجی فلاحی ادارے سے منسلک ہیں اور اپنا کافی وقت مختلف جیلوں، خاص کر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کی قیدیوں کے ساتھ گزارتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
خواتین کے زیر جاموں کی فروخت
سمعیہ بی بی اسلام آباد میں پشاور موڑ پر ہر اتوار بازار میں دو سال سے اپنا سٹال لگاتی ہیں اور خواتین کے زیر جامے فروخت کرتی ہیں۔ وہ یہ سامان خود پشاور سے لا کر اسلام آباد میں بیچتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں ان مردانہ نظروں پر غصہ آتا ہے، جن میں عورت کے لیے کوئی عزت نہیں ہوتی۔ سمعیہ کی طرح بہت سی پاکستانی خواتین مختلف مارکیٹوں میں کئی طرح کا سامان بیچتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
تعلیمی شعبے میں خدمات
شگفتہ اسد کی بچوں کے لیے تعلیم میں دلچسپی کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنے قائم کیے ہوئے سپرنگ بورڈ اسکول سسٹم کی متعدد شاخیں چلاتی ہیں۔ شگفتہ کی بنیادی ذمہ داری ایک منتظمہ کی ہے، لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں اسکول جانے کی عمر کے کئی ملین بچے اسکول جاتے ہی نہیں۔ تعلیمی ادارے سرکاری ہوں یا نجی، پاکستانی تعلیمی شعبے میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کام کرتی ہے۔
تصویر: Shagufta Asad
ڈاکٹروں کے طور پر ناگزیر کردار
ڈاکٹر فرحت ارشد راولپنڈی میڈیکل کالج اور کئی دیگر طبی اداروں سے وابستہ زچہ و بچہ سے متعلق امراض کی ایک ماہر معالج ہیں۔ پاکستان میں بہت سے شہری طبی سہولیات سے محروم ہیں اور ملکی آبادی میں ڈاکٹروں کا مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے تناسب بھی خوش کن نہیں۔ پاکستانی خواتین میں ڈاکٹر بننے کا رجحان کئی برسوں سے کافی زیادہ ہے۔ اکثر خواتین علاج یا معائنے کے لیے خواتین ڈاکٹروں کے پاس ہی جانا چاہتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
نرسنگ، ایک پسندیدہ پیشہ
کوئی ہسپتال سرکاری ہو یا نجی، شہر میں ہو یا دیہی علاقے میں، نرسنگ کے بغیر طبی شعبے کی کامیاب کارکردگی کا تصور کہیں بھی ممکن نہیں۔ پاکستانی طبی شعبے میں نرسنگ کرنے والے پیشہ ور اور تربیت یافتہ افراد میں خواتین کی تعداد ہمیشہ ہی بڑی اکثریت میں رہی ہے۔ مرد نرسوں کی تعداد ابھی بھی بہت کم ہے۔ پورے پاکستان میں کل وقتی یا جزوقتی عملے کے طور پر لاکھوں خواتین پیشہ ور نرسوں کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گھریلو خواتین، نظر انداز کر دی گئی اکثریت
شبانہ حارث اسلام آباد میں رہتی ہیں، شادی سے پہلے باقاعدہ ملازمت کرتی تھیں لیکن اب دو بچوں کی والدہ ہیں اور ایک گھریلو خاتون۔ خانہ داری کرنے والی کسی بھی خاتون یا ہاوس وائف کا صبح سے شام تک جاری رہنے والا کام کسی کل وقتی ملازمت یا روزگار سے کم نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسی خواتین معیشت اور روزگار کی ملکی منڈی میں اپنی کوئی جگہ نہیں بنا پاتیں۔
تصویر: Shabana Haris
لاکھوں گھریلو ملازمائیں
پاکستانی دارالحکومت میں پانچ افراد پر مشتمل ایک گھرانے میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی بائیس سالہ ناصرہ کو ماہانہ دس ہزار روپے ملتے ہیں، جو دراصل اسے نہیں ملتے بلکہ اس کے والدین آ کر لے جاتے ہیں۔ ناصرہ اپنے آجر خاندان کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ پاکستان میں کئی لاکھ خواتین اور نوجوان لڑکیاں ایسی ہیں جو گھریلو خادماؤں کے طور پر کام کرتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
فٹنس اور یوگا کی نجی تربیت
اسلام آباد کے سماجی حلقوں میں معروف فٹنس ٹرینر صنوبر نظیر خواتین کو بدلتے ہوئے معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا چاہتی ہیں۔ وہ ملازمت اور بزنس پیشہ خواتین کو نجی طور پر جسمانی فٹنس اور یوگا کی تربیت دیتی ہیں۔پاکستان میں کئی ایسے شعبے ہیں، جن میں خواتین دوسری خواتین کی مدد کرتی ہیں۔ ان میں یوگا، فٹنس، پیراکی، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نجی ٹریننگ جیسے شعبے شامل ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
انٹیریئر ڈیزائننگ کے ذریعے خود انحصاری
آرٹ کے پس منظر کی حامل اور حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی پارس محمود شاہ ایک انٹیریئر ڈیزائنر ہیں جنہوں نے ثقافتی ورثے سے اپنی محبت کے باعث گھروں اور غیر رہائشی عمارات کی اندرونی تزئین و آرائش کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ وہ اس آرائش کے لیے ٹائلوں، دیواروں اور فرنیچر کی پینٹنگ سے کام لیتی ہیں۔ آرٹ اور ڈیزائننگ کو ملا کر جس طرح اپنا پیشہ انہوں نے بنایا ہے، ویسا بہت کم پاکستانی خواتین کرتی ہیں۔
تصویر: Paras Shah
بیوٹی پارلر چلانا بھی ایک کامیاب پیشہ
پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہزارہا خواتین نے اپنے میک اپ سیلون اور بیوٹی پارلر کھول رکھے ہیں، شادیوں پر دلہنوں کا خطیر رقوم دے کر پارلر سے میک اپ کروانا ایک روایت بن چکا ہے۔ اس طرح بہت سے ایسی خواتین کے لیے بھی، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ یا کسی سائنسی پیشے کی ماہر نہیں بھی ہوتیں، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا ایک نیا اور کامیاب رستہ کھل چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
زرعی شعبے میں خواتین کا حصہ
ایک نیم دیہی علاقے میں مویشیوں کے لیے گھاس کاٹنے والی یہ خواتین پاکستان کی ان کئی ملین خواتین کے کردار کی علامت ہیں، جو دیہی علاقوں میں زرعی شعبے کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ پاکستان کی قریب 65 فیصد آبادی دیہی یا نیم دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ پاکستانی معیشت زیادہ تر ایک زرعی معیشت ہے، جس میں خواتین کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
14 تصاویر1 | 14
دور کونے میں مدہم سی روشنی میں ایک خاتون کچھ کام کرتی نظرآ رہی تھی۔ میں نے نشو سے پوچھا یہ اتنے اندھیرے میں کیا کر رہی ہیں ۔ اس نے بتایا یہ کپڑوں پر کشیدہ کاری کرتی ہیں اور اسی سے ان کی گزر بسر ہوتی ہے۔ رات یونہی باتوں میں گزر گئی لیکن ان کشیدہ کاری بنانے والی خاتون سے ملنے کا شوق دل میں باقی تھا۔
مجھے پھر سے وہ بس والی لچھمی بھی یاد آئی جو اپنے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں کے باوجود اپنے حالات کا مقابلہ کر رہی تھی۔ تصویر کا یہ رخ ہم میں سے بہت کم لوگوں نے اتنے قریب دیکھا ہوگا۔ صبح سویرے نشو کے ہمراہ اس کا کام نمٹایا۔ اس کے فورا بعد میں نے اس سے کہا کہ مجھے ان کشیدہ کاری بنانے والی خاتون سے ملوا دے۔
نشو زیرِ لب مسکرائی اور مجھے اپنے پیچھے چلنے کا اشارہ کیا۔ اسی راہداری میں چار کمرے چھوڑ کر ایک کمرے میں لے گئی۔ ' صفیہ ! دیکھو تم سے ملنے کون آیا ہے؟‘ نشو نے اس خاتون کو مخاطب کیا۔ ''اب تم دونوں باتیں کرو۔ میں ذرا دوسرے کام نمٹا لوں۔ ‘‘
صفیہ نے مسکرا کر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اپنے کا م میں مشغول ہوگئی۔ پھر صفیہ سے اسی کی زبانی اس کی کہانی سنی۔ بظاہر دوشیزہ سی دکھنے والی صفیہ پانچ بیٹوں کی ماں ہے۔ لیکن قسمت کی ستم ظریفی کہ اس کا شوہر اس سے بچے چھین کر دوسری شادی کر چکا ہے اور وہ اپنی گزر بسر کے لیے کپڑوں پر دھاگوں سے رنگ بکھیرتی رہتی ہے۔
شاید اسی طرح اس میں جینے کی رمق باقی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ قمیضیں، تکیے کے غلاف، بستر کی چادریں ، دسترخوان، نوزائیدہ بچوں کے بستر وغیرہ بناتی ہے۔ ''کتنے پیسے کما لیتی ہو مہینے بھر میں؟‘‘ میرے اس سوال کے جواب میں صفیہ مسکرائی اور کہنے لگی ''اتنے کہ بس اپنے لیے شیمپو اور کریم خرید لوں اور جب اپنے بچوں سے ملنے جاؤں تو ان کے لیے ایک جیسے پانچ تحفے خرید لوں۔ باقی میرا کھانے پینے اور رہنے سہنے کے خرچے سب میرے بھائی اٹھاتے ہیں۔ میں یہ کام اپنے آپ کو مصروف رکھنے اور اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرنے کے لیے کرتی ہوں۔ کیا کروں ماں ہوں ناں۔‘‘
صفیہ اس وقت بھی بیٹھی کشیدہ کاری ہی کر رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں دروازے پر دستک ہوئی ۔ صفیہ اٹھ کر دروازے تک گئی اور میں اس کا کام دیکھنے میں مشغول ہوگئی۔ اس کے ہاتھ میں واقعی جادو تھا۔ اس مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ اس نے ان پھول پتوں میں رنگ بکھیرے تھے کہ آنکھوں کو گمان ہوتا تھا کہ یہ دھاگے کا کام نہیں بلکہ کپڑے پر چھپائی کی گئی ہے۔ میری نظر اس کے ٹانکوں پر ٹہر ہی نہیں پا رہی تھی۔ ''صفیہ کچھ میرے لیے بھی بنا دو گی؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔ ''بالکل! کیوں نہیں باجی میں ضرور بنا کر دوں گی۔‘‘
ایک بار پھر دروازے پر دستک ہوئی اور اس دفعہ صفیہ میرے لیے گرما گرم چائے کا کپ اور ساتھ میں پاپڑ اور گڑ بھی لے کر آئی۔ اس کی مہمان نوازی دیکھ کر میرا دل اور پگھل گیا۔ میں سوچ رہی تھی کہ واقعی دل کی امیری اسے کہتے ہیں۔ میں نے چائے پی کر صفیہ سے اجازت چاہی اور واپس نشو کے کمرے کی طرف چل پڑی۔
میں نے بہت تھوڑے وقت میں زندگی کو بہت قریب سے دیکھ لیا۔ اس پورے سفر نے میرا زندگی کو دیکھنے کا زاویہ کافی حد تک بدل دیا تھا۔یہاں بھی زندگی آسان نہ تھی۔ واقعی زندہ رہنے کے لیے انسان کو بہت کرب سے گزرنا پڑتا ہے اور پھر شہر بڑا ہو یا چھوٹا، انسانی فطرت اور حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ہر جگہ ہر حال میں موجود ہونا چاہیے۔
لچھمی سے نشو اور پھر صفیہ تک کا سفر مجھے ان خواتین کے ہمت، حوصلے اور انتھک محنت کے جذبے کو داد دینے پر مجبور کرتا رہا۔ وقت کے ہاتھوں مجبور تھی اور اب گھر کی یا د بھی ستا رہی تھی۔ جس کام کے لیے یہاں تک آئی تھی وہ بھی مکمل ہو گیا تھا اور اب واپس کراچی جانے کا وقت ہوا جا رہا تھا۔
میں نے اپنی سہیلی سے اجازت چاہی ۔ واپسی پر مجھے نشو اور اس کے گھر والوں نے بہت سے تحائف سے نوازا۔ ان میں صفیہ کے ہاتھ سے بنا تکیے کا غلاف، رلی، روٹی رکھنے کی بان سے بنی ٹوکری، سرسوں کا خالص تیل اور گھر کا بنا اصلی گھی بھی شامل تھا۔ میری آنکھیں پر نم تھیں۔ ان محبتوں کا واقعی کوئی نعم البدل نہیں تھا۔ میری دعا ہے کہ ہماری دوستی اسی طرح قائم رہے۔
عورت کس کس روپ ميں استحصال کا شکار
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين غلامی پر مجبور ہيں اور کئی صورتوں ميں خواتين کا استحصال جاری ہے۔ جبری مشقت، کم عمری ميں شادی، جنسی ہراسگی اور ديگر کئی جرائم سے سب سے زيادہ متاثرہ عورتيں ہی ہيں۔
تصویر: dapd
جدید غلامی کيا ہے؟
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق موجودہ دور ميں غلامی ايسی صورت حال کو کہا جاتا ہے، جس ميں کسی کی ذاتی آزادی کو ختم کيا جائے اور جہاں کسی کے مالی فائدے کے ليے کسی دوسرے شخص کا استعمال کيا جائے۔
تصویر: Louisa Gouliamaki/AFP/Getty Images
تشدد، جبر، جنسی ہراسگی: جدید غلامی کے انداز
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين مختلف صورتوں ميں غلامی کر رہی ہيں۔ 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کی رپورٹ کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت، قرض کے بدلے کام، جبری شاديوں اور ديگر صورتوں ميں وسيع پيمانے پر عورتوں کا استحصال جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
جنسی استحصال آج بھی ايک بڑا مسئلہ
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کے مطابق موجودہ دور میں جنسی استحصال کے متاثرين ميں خواتين کا تناسب ننانوے فيصد ہے۔
تصویر: Sazzad Hossain/DW
جبری مشقت: مردوں کے مقابلے ميں عورتيں زيادہ متاثر
انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن اور بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کے تعاون سے اکھٹے کيے جانے والے 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کے اعداد کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت کے متاثرين ميں عورتوں کا تناسب چون فيصد ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
جبری شادیاں، لڑکيوں کے ليے بڑا مسئلہ
رپورٹ کے مطابق قرض کے بدلے یا جبری شاديوں کے متاثرين ميں خواتین کا تناسب چوراسی فيصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Bouys
نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے مہم
'واک فری‘ اور اقوام متحدہ کا 'ايوری وومين، ايوری چائلڈ‘ نامی پروگرام نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے ہے۔ اس مہم کے ذريعے جبری يا کم عمری ميں شادی کے رواج کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو اب بھی 136 ممالک ميں قانوناً جائز ہے۔ يہ مہم کفالہ جيسے نظام کے خاتمے کی کوشش کرے گی، جس ميں ايک ملازم کو مالک سے جوڑ ديتا ہے۔