ایک غلط جسم میں قید ہونا کیسا لگتا ہے؟
1 جولائی 2016اسکول جانے سے پہلے ہی علی رضا کا علم ہو چکا تھا کہ اس کی ذات دراصل ایک غلط جسم میں بند ہے۔ اسے بچپن سے ہی لڑکوں کے ساتھ کھیلنا پسند نہیں تھا بلکہ اس کی دلچسپی گڑیوں، زیورات اور میک اپ میں تھی۔ اس نے پانچ یا چھ سال کی عمر میں اپنی والدہ کو یہ بتایا کہ وہ ایک لڑکا نہیں بلکہ لڑکی ہے تو والدہ نے اس بات پر کان نہیں دھرے لیکن انہوں نے جواب میں اسے خبردار ضرور کیا۔
عالیہ کا کہنا تھا، ’’میں کسی ایسی جگہ جانا چاہتی تھی جہاں مجھے اپنی شناخت نہ چھپانا پڑے۔ جہاں میں ایک آزاد انسان کے طور پر رہ سکوں۔‘‘ اس نے مزید بتایا کہ جرمنی آنے کے کچھ عرصے بعد اس نے اپنی والدہ اور بہن کو ان ساری تفصیلات سے آگاہ کیا، ’’مجھے ڈر تھا کہ میرے گھر والے مجھے عاق نہ کر دیں لیکن یہ سب سننے کے بعد وہ میرے ساتھ ہی ہیں، جو ایک غیر معمولی بات ہے۔‘‘
عالیہ نے ہنستے ہوئے کہا کہ وہ علی رضا کو کہیں پیچھے پاکستان میں ہی چھوڑ آئی ہے۔ اب وہ پاکستان میں نہیں بلکہ ہزاروں کلومیٹر دور کولون میں رہتی ہے۔ وہ گزشتہ ساڑھے تین سال سے اس شہر میں ماحولیاتی سائنسس کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ وہ باقاعدگی سے کولون میں ہم جنس پرستوں، جنس تبدیل کرانے والوں اور ٹرانس جینڈر افراد کی مشاورت کے لیے قائم کیے جانے والے ایک مرکز میں جاتی ہیں۔ اب اسے یہ کہنے اور تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ ایک لڑکی ہے۔
عالیہ نے بتایا کہ وہ ہارمونز کی گولیاں کھاتی ہے اور امید کرتی ہے کہ اگلے دو سالوں میں وہ تبدیلی جنس کا آپریشن بھی کر وا لے گی۔ یہ بتاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں خوشی اور طمانیت دیکھی جا سکتی تھی۔
عالیہ کو آج تک جسمانی تشدد کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا تاہم جرمنی میں بھی اسے امتیازی سلوک برداشت ضرور کرنا پڑا ہے، ’’ ایک مرتبہ نشے میں دُھت ایک شخص نے مجھے گالیاں دیں اور مجھے سے کہا کہ مجھے واپس بھارت چلے جانا چاہیے۔ میں نے اس سے کہا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے اور یہ نفرت تمہارا مسئلہ ہے، میرا نہیں‘‘۔
پاکستان میں اس کا ایک بوائے فرینڈ تھا تاہم اس کے بعد سے وہ کسی ساتھی کی تلاش میں ہے۔ عالیہ کے بقول، ’’ٹرانس جینڈر شہریوں کے بارے میں معلومات بچوں کی بنیادی تعلیم میں ہی شامل ہونی چاہیے۔ ہم بھی دیگر مردوں اور خواتین کی طرح ہی ہوتے ہیں۔‘‘