ایک فلسطینی کا خواب، سرفنگ کا عالمی چیپمپیئن بننا
22 جنوری 2011خبر رساں ادارے اے ایف پی کے نمائندے سے گفتگو میں ابو ضیاب نے بتایا کہ وہ لمبے عرصے سے یہ خواہش دل میں لیے ہوئے ہیں کہ ایک دن وہ سرفنگ کے عالمی چیمپیئن بنیں،’ بچپن سے ہی سرفنگ میرا مشغلہ رہا ہے، ٹیلی وژن پر دیکھ کر میں نے سرفنگ سیکھی اور پھر اس سے محبت پیدا ہوگئی۔‘ 38 سالہ ابو ضیاب نے بتایا کہ وہ گزشتہ دو دہائیوں سے یہی تمنا دل میں لیے ہوئے ہیں کہ ایک دن دنیا بھر میں وہ اس کھیل کے بہترین کھلاڑی بنیں۔
’ ہم غزہ کے لوگوں کے لئے تلخ زندگی سے فرار کا واحد راستہ یہی سمندر ہے، تو جب میں سرفنگ کرتا ہوں تو غزہ میں بیروزگاری، غربت اور محاصرے کی کڑوی حقیقتیں میرے ذہن سے نکل جاتی ہیں اور میں آزادی محسوس کرتا ہوں۔‘ اُن کا اشارہ 2007ء سے اسرائیلی محاصرے کی جانب تھا، جس کے سبب غزہ کے لگ بھگ 15 لاکھ شہری محصور ہیں۔
گزشتہ سال 31 مئی کو غزہ جانے والے امدادی بحری فلوٹیلا پر اسرائیلی کمانڈوز کی خونریز کارروائی کے بعد عالمی برادری نے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا تھا۔ اس دباؤ کے نتیجے میں محاصرے میں کچھ نرمی کی گئی ہے۔
اپنے شوق سے متعلق مزید بتاتے ہوئے ابو ضیاب نے انکشاف کیا کہ غزہ میں اُن جیسے مزید 40 اور لڑکے ہیں جنہیں سرفنگ کا شوق ہے اور وہ 15 سرفنگ بورڈز پر مل بانٹ کر سرفنگ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ’سرفنگ برائے امن‘ نامی ایک منصوبے کے تحت ایک فلاحی تنظیم غزہ سرف ریلیف نے انہیں سرفنگ کا لباس بھی مہیا کر رکھا ہے۔
ابو ضیاب کے ساتھی احمد نے بتایاکہ محدود وسائل کے باوجود لڑکوں نے اپنے کھیل میں بہت نکھار پیدا کیا ہے۔ بحیرہ روم کے پانی میں بڑھتی آلودگی خطے کے باسیوں کے ساتھ ساتھ سرفرز کے لئے پریشانی کا سبب بن رہی ہے۔ غزہ کے فلسطینی لڑکوں کے مطابق ان کے دلوں میں ہر وقت اسرائیلی بحریہ کا خوف بھی رہتا ہے جو کسی بھی وقت کسی کو مشکوک سجھ کر اس پر فائرنگ کرسکتی ہے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عاطف بلوچ