ایک قومی نصابِ تعلیم کا مطلب کیا ہے؟
8 اکتوبر 2021جو نعرے پون صدی کی سرمایہ کاری سے ہم نے سیکھے ہیں، وہ کچھ ایسے ہیں!
ہم سندھی، بلوچ، پشتون، پنجابی، سرائیکی اور گلگتی کیوں کہلواتے ہیں، ہم ایک پاکستانی کب بنیں گے؟
ہم شیعہ، سنی میں بٹے ہوئے ہیں، ہم ایک مسلمان کب بنیں گے؟
ہم ایک قوم ہیں تو پھر ہمارا نصابِ تعلیم ایک کیوں نہیں ہونا چاہیے؟
ہمارا نصاب مختلف ہو گا تو ہم ایک قوم کیسے بنیں گے؟
بظاہر یہ جملے ہمیں بہت اچھے اور بھلے اس لیے لگتے ہیں کہ ان جملوں کی ساخت میں کہیں نفی کا صیغہ نہیں ہے۔ سارے ہی جملے خلوص سے بھرپور ہیں اور مثبت ہیں۔ مگر یہ اِتنے ہی مثبت ہیں، جتنا پہلی بار جلوس میں نکلے ہوئے ایک امیر زاد محب وطن شہری کا یہ جملہ مثبت تھا، ''ہماری پولیس ہمیں ڈنڈے مار رہی ہے، آپ ہی بتائیں انقلاب کیسے آئے گا؟‘‘
دوسرا غضب یہ ہے کہ ان جملوں میں اتفاق اور اتحاد کا حوالہ موجود ہے۔ اتحاد اور اتفاق کی اس چادر سے ہم اس حقیقت کو ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم ایک قوم نہیں ہیں۔ متنوع سماج تب ہی ایک قوم بنتا ہے، جب سماج یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ ہم مختلف زبانوں، قوموں، عقیدوں، نسلوں اور تہذیبوں کے لوگ ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم متحد نہیں ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم متحد ہونے کی ایک غیر فطری کوشش کرتے ہیں۔
امن شانتی اور سُکھ سلامتی اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک مختلف طبقات کی بے چینیوں کو دور نہ کر دیا جائے۔ بے چینی دور ہوتی ہے تو ہی طبقے کسی مرکزی طاقت پر بھروسہ کرتے ہیں۔ طبقات کو متحد رکھنے کے لیے طاقت سے کوئی تجویز نہیں لی جا سکتی۔ ریاست، سماج اور شہری کے بیچ رشتہ دھونس اور جبر کا نہیں ہوتا۔ طاقت نے کہا مان لو اور طبقے کہہ دیں کہ ہم نے مان لیا، ایسا ہوتا نہیں ہے۔ جبر کے ذریعے بات منوائی تو جا سکتی ہے، سمجھائی نہیں جا سکتی۔ بات جب تک سمجھائی نہیں جائے گی تب تک بے چینی برقرار رہے گی۔ مختلف طبقات اگر مسلسل بے چین ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ ملک بہت کمزور بنیاد پر کھڑا ہے اور عوام کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔
بے چینی کو جدید دنیا میں اتحاد اور اتفاق کے کسی فرسودہ فارمولے پر ختم نہیں کیا جاتا بلکہ تقسیم اور رنگارنگی کی حقیقت کو قبول کر کے ختم کیا جاتا ہے۔ جدید ریاستیں چھوٹی چھوٹی مختلف ریاستوں یا صوبوں کا ایک مرکز ہیں۔ ان ریاستوں کی اپنی اسمبلیاں ہیں، اپنے قوانین ہیں، اپنے اختیارات ہیں اور اپنا نصابِ تعلیم ہے۔ ہر ریاست کو اپنے وسائل اور مسائل پر اختیار حاصل ہوتا ہے۔ اپنی پیداوار میں ان کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ ان کا اپنا نصاب ہوتا ہے اور اپنا نظامِ تعلیم ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وہاں قومی سلامتی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی تقسیم اور تفرقے کا سوال جنم لیتا ہے۔
ہمارے ہاں جب کسی سے کہا جاتا ہے کہ پشتون یا سندھی نہ بنو، ایک پاکستانی بنو، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنے علاقائی یا صوبائی اختیارات سے دستبردار ہو جاؤ۔ جب کہا جاتا ہے کہ شیعہ یا سنی مت بنو ایک مسلمان بنو، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سارے کے سارے مسالک اپنی اپنی روایتوں سے دستبردار ہو کر ریاست کے بالادست مسلک کے آگے تسلیم ہو جائیں۔
جب کہا جاتا ہے کہ ہم ایک قوم ہیں، ہمارا ایک ہی نصابِ تعلیم ہونا چاہیے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنی حقیقی تاریخ جان کر اذیتوں میں اضافہ نہ کرو بلکہ ریاستی اشرافیہ کے پروپیگنڈہ تیل میں بننے والے نرگسی کوفتے کھاؤ اور اطمینان کی لسی پی کر سو جاؤ۔
دور پار کی باتیں کیا کریں، اپنے پڑوس ہندوستان میں ہی جھانک کر دیکھ لیں۔ وہاں بہاری جب خود کو بہاری کہتا ہے تو ریاست مضبوط ہوتی ہے۔ یہاں بلوچ جب خود کو بلوچ کہتا ہے تو ریاست تشویش میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ سوچنا چاہیے کہ کیوں؟
کیونکہ ہندوستان کے بیانیے میں یہ بات معلوم ہے کہ بہاری کہلوانے کے بعد بھی بہاری ہندوستان کا ہی شہری ہوتا ہے۔ ہمارے بیانیے میں خود کو بلوچ کہلوانے کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ شہری پاکستانی ہونے کا انکار کر رہا ہے۔ یہ اِس لیے سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں محدود طبقے یا ادارے کے مفاد کو قومی مفاد کہا جاتا ہے۔ اسی قومی مفاد کو ہم نے مملکتِ اللہ داد کا نام دیا ہوا ہے۔ شہری جب اونچے سُروں میں اپنی مادری زبان کا گیت گاتا ہے تو وہ دراصل محدود طبقے کے مفاد کو قومی مفاد ماننے سے انکار کرتا ہے۔ بتانے والے بتانے لگتے ہیں کہ یہ شخص دراصل پاکستان کے آئین کا انکار کر رہا ہے۔
طاقت کی نظر میں پاکستان اُن مراعات کا نام ہے، جو طاقت کو حاصل ہیں۔ حاصل ہونے والے ان مراعات کا جواز یہ ہے کہ ملک کے بھلے کا کسی کو اگر کوئی خیال ہے تو وہ صرف طاقت ہے۔ طاقت چونکہ سرحدوں پر موجود ہے، پڑوسیوں سے پنجے لڑا رہی ہے، ملک کے اندر موجود دشمنوں سے لڑ رہی ہے، ففتھ جنریشن وار میں جتی ہوئی ہے، اس لیے اس کے حقے پانی کا سوال صحت، تعلیم اور کھیل کے سوال سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
چنانچہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ بچے پہلے اپنی تعلیم، صحت اور کھیل کود کے پیسے ایک طرف کریں اور جو بچ جائیں وہ مجھے دے دیں۔ ہو گا یہ کہ پہلے ابا میاں اپنا حصہ نکالیں گے، جو بچ جائیں گے وہ بچے آپس میں مل بانٹ کے کھائیں گے۔ اچھے سکول میں نہیں جا سکتے تو کسی گزارے لائق سکول میں چلے جائیں۔ اس میں بھی نہیں جا سکتے تو آرام سے گھر بیٹھ جائیں۔ سرجری کے پیسے نہیں ہیں تو پین کِلر کھا لیں۔ وہ بھی نہیں ہے تو پیناڈول اور دم درود پر گزارا کر لیں۔ جو کرنا ہے کرے، میرے روپے پیسے میں کمی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ میں ہوں گا تو یہ ملک چلے گا۔ سو، ایک وقت کی روکھی سوکھی بھی کہیں سے مل جائے تو ہماری شکر گزاری کیا کرو۔ ہم نہ ہوتے تو اِتنے کے بھی لائق نہ ہوتے۔
ریاست میں دو چیزیں قدم بقدم شانہ بشانہ چلتی ہیں۔ ایک قومی مفاد اور دوسرا قومی بیانیہ۔ قومی مفاد عوامی طاقتیں طے کرتی ہیں اور قومی بیانیہ اسی مفاد سے جنم لیتا ہے۔ ہمارا نصابِ تعلیم ہمارا قومی بیانیہ ہے، جو ہمارے قومی مفاد کی تشریح کرتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارا قومی مفاد عوامی طاقتوں نے تشکیل نہیں دیا۔ یوں کہہ لیں کہ ہمارے قومی مفاد کی تشکیل میں صوبائی طاقتوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔
اس قومی مفاد کے اندر صوبائی حقوق کے لیے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں تعلیم کا سوال صوبوں کے دائرے میں آتا ہے۔ صوبے چاہتے ہیں کہ ہم اپنی زبان، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کے تناظر میں نصابِ تعلیم تشکیل دیں۔ طاقت کو لگتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو پھر لوگوں میں آگہی بڑھے گی۔ وہ اپنا جغرافیہ جان سکیں گے، اپنے وسائل کا ادراک ہو گا اور اپنے اختیار کی اہمیت جان جائیں گے۔
اگر ایسا ہوا تو اس کے نتیجے میں طاقت کے چائے پانی پر بہت بڑا فرق پڑے گا۔ ایسے میں طاقت کو اور کچھ سمجھ نہیں آتا تو قوم کو بتاتی ہے، اس سے ہماری نظریاتی سرحدوں کو نقصان پہنچے گا۔
ہمارے نصاب میں دو مسئلے ہمیشہ سے رہے ہیں۔ جب بھی نصاب میں بہتری کی بات ہوتی ہے، اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ ان دو مسائل کو مزید کیسے بڑھایا جائے؟ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اپنی طبع میں تنوع اور تکثیریت سے انکار کرتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ تنقیدی مطالعے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ تنقیدی مطالعے کی نشوو نما کے بغیر ترقی کا تصور کرنا بہت بڑی جسارت ہے۔ ہم جب ایک نصابِ تعلیم کی بات کرتے ہیں تو ہم دراصل تعلیم پر طاقت کے اجارے کو قبول کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم جب مختلف نصاب ہائے تعلیم سے اختلاف کرتے ہیں تو ہم علمی مسابقے اور کریٹیکل تھنکنگ کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ملک اسی لیے دو لخت ہوا تھا کہ طاقت نے شہریوں کو دراصل ''ایک قوم بنانے‘‘ کی کوشش کی تھی۔ آج بھی افراتفری میں اگر اضافہ ہوا ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھی ہمارا ''ایک قوم‘‘ ہونا ہے۔ ایسا تب تک رہے گا، جب تک ہم یہ سمجھتے رہیں گے کہ تمام چھوٹے بڑوں کا طاقت کے آگے تسلیم ہو جانے کو اتحاد و اتفاق کہتے ہیں۔
خیبر سے بولان تک اور شمال سے مہران تک اگر ہم اطمینان کی فصل کاشت کرنا چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے کہ علاقوں کو اپنے نصاب کی زمینوں میں اپنے ہی دانش کے بیج بونے کا موقع فراہم کیا جائے۔