پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر زراعت ملک نعمان احمد لنگڑیال نے انکشاف کیا ہے کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے صرف پنجاب میں ایک لاکھ ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔
اشتہار
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں سرکاری ادارے حالیہ غیر معمولی بارشوں سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں، پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر زراعت نے ایک لاکھ ایکڑ پر کاشت گئی گندم کی فصل کو نقصان پہنچنے کا انکشاف کیا ہے۔ ڈی ڈبلیوسے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ملک نعمان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں زیادہ نقصان بہاولپور، ڈی جی خان اور ملتان کے علاقوں کے زرعی رقبے پر دیکھنے میں آیا تھا اور سرکاری سروے کے مطابق اس وقت 35 ہزار ایکڑ رقبے پر موجود فصلوں کو نقصان پہنچا تھا۔ ملک نعمان کے مطابق، ’’منگل اور بدھ کی درمیانی رات کو ہونے والی شدید بارشوں سے لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد ڈویزنز میں بھی زرعی فصلیں تباہ ہوئی ہیں، اگرچہ اس سلسلے میں حتمی سروے شروع کر دیا گیا ہے لیکن ابتدائی اندازوں کے مطابق ان بارشوں سے متاثر ہونے والے زرعی رقبہ ایک لاکھ ایکڑ تک ہو سکتا ہے۔‘‘
پنجاب میں اس سال گندم کی غیر معمولی پیداوار کی توقع کی جارہی تھی۔ صوبائی محکمہ زراعت کے ڈائرایکٹر جنرل (توسیع) ڈاکٹر انجم علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ صورتحال الارمنگ تو ہے لیکن اس سے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ اگر بارشوں کا سلسلہ رک جائے اور کاشتکار ٹوٹی ہوئی فصل سے اناج حاصل کرنے کے مؤثر طریقے اپنائیں تو اس سے بھی کسی حد تک نقصان میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، ’’پنجاب میں گندم کے پیداواری ٹارگٹ کو حاصل کرنا مشکل تو ہو گا لیکن توقع ہے کہ یہ کمی بہت زیادہ نہیں ہوگی۔‘‘ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ آئندہ ہفتے بارشوں کا ایک اور سیلابی سلسلہ پاکستان میں داخل ہونے والا ہے اس لیے کاشت کاروں کو بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب حکومت نے شدید بارشوں کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر صوبے بھر میں انتظامیہ، پولیس اور امدادی سرگرمیوں سے متعلقہ اداروں کو آئندہ دنوں میں کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دے رکھا ہے۔
پاکستان میں قدرتی آفات کے حوالے سے قائم کیے گئے وفاقی ادارے این ڈی ایم اے نے ان بارشوں کی وجہ سے ہونے والے حادثات میں 49 افراد کے جاں بحق ہونے اور 176 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ این ڈی ایم اے کے مطابق ان بارشوں کی وجہ سے 117 گھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
دوسری طرف حالیہ بارشوں سے متاثر ہونے والے لوگوں نے آفت زدہ علاقوں کے لیے ریلیف پیکج کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان میں کاشتکاروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کسان بورڈ پاکستان کے مطابق حالیہ بارشوں کی وجہ سے ملک کے زرعی شعبے کو بہت نقصان پہنچا ہے، کئی علاقوں میں گندم اور مکئی کی تیار فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ ژالہ باری کی وجہ سے گندم کی فصل کے پودے کے سٹے الگ ہو گئے ہیں، کئی جگہوں پر کٹی ہوئی فصل کھیتوں میں پانی بھر جانے سے خراب ہو گئی ہے۔ کسان بورڈ کے مطابق بارش کے ساتھ آنے والی تیز آندھی کے باعث آم کے درختوں سے پھل گر جانے کی وجہ سے آم کی فصل بھی بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور وسطی پنجاب میں سبزی کے کاشت کاروں نے بھی سبزیوں کی فصلوں کو نقصان پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔
کسان بورڈ پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل شوکت علی چدھڑ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ان حالات میں اگر حکومت نے کاشت کاروں کو امدادی پیکج نہ دیا تو اس سے اگلی فصلوں کی کاشت متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ غریب کاشت کاروں کی فصلوں کی تباہی کے بعد نہ تو ان کے پاس تباہ ہو جانے والی پچھلی فصل کے لیے ادھار پر حاصل کی جانے والی زرعی ادویات وغیرہ کے پیسے چکانے کی ہمت ہے اور نہ ہے وہ اگلی فصل کے لیے بیج، کھادیں اور زرعی ادویات خرید سکتے ہیں۔ اس لیے چاول اور کپاس کی کاشت متاثر ہو سکتی ہے۔‘‘
بعض اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ بارشوں سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کے بعد ملک میں گندم کی پیداوار کا ہدف پورا ہونا مشکل ہو جائے گا بلکہ اس سے مارکیٹ میں زرعی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کا بھی امکان ہے۔
ضلع خانیوال میں پیر والی کے علاقے میں موجود عبدالقیوم نیازی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس نے 50 ایکڑ اراضی ٹھیکے پر لے کر آٹھ ایکڑ زمین پر مکئی اور 42 ایکڑ پر گندم کاشت کی تھی: ’’ایک ایکڑ پر میرے 55 ہزار روپے خرچ آیا تھا، میں نے قرضہ لے کر یہ سرمایہ کاری کی لیکن حالیہ بارشوں اور شدید ژالہ باری کی وجہ سے سب کچھ برباد ہو گیا۔ مکئی کی پوری فصل تباہ ہو گئی جبکہ 50 من فی ایکڑ پیداوار دینے والے گندم کے کھیتوں سے 10 من فی ایکڑ پیداوار کی بھی توقع نہیں ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ سرکار کی طرف سے کسی نے ہماری خبر تک نہیں لی اور ہمیں بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔‘‘
جنوبی پنجاب کے ایک کاشت کار ظہیر عباس نے بتایا کہ حالیہ بارشوں سے میاں چنوں کے علاقے میں ان کی اپنی فصلیں تو محفوظ رہی ہیں لیکن ان کے بقول چھوٹے کاشت کاروں کوان بارشوں سے بہت نقصان پہنچا ہے اور بعض علاقوں میں تو جانوروں کے چارے کی فصل بھی بری طرح تباہ ہو گئی ہے: ’’جنوبی پنجاب میں غریب لوگ اپنے قرضے اتارنے، اپنی سال بھر کی غلے کی ضروریات پوری کرنے اور بچوں کی شادی بیاہ کے لیے گندم کی فصل سے ہونے والی آمدن کا انتظار کرتے ہیں، ان بارشوں نے تو ان کی اقتصادی مشکلات بہت بڑھا دی ہیں۔‘‘
لیہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن کے علاقے شاہ پور نشیب کے ایک کاشت کارسید تنصیر شاہ نے بتایا کہ حالیہ بارشوں سے فصلوں کو پہنچنے والا نقصان کئی جگہوں پر بہت زیادہ ہے اور خطرہ ہے کہ متاثرہ علاقوں میں کاشت کاروں کو ان کی فصلوں پر آنے والی لاگت بھی موصول نہیں ہو سکے گی: ’’میں نے نیشنل بینک سے قرضہ لے کر فصل کاشت کی تھی لیکن مجھے ڈر ہے کہ انشورنس کمپنی حیلوں بہانوں سے اس نقصان کو پورا کرنے سے گریز کرے گی۔‘‘
پنجاب کے چیف میٹرالوجسٹ ڈاکٹر عظمت حیات نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں ایک نیا رجحان یہ سامنے آیا ہے کہ اب بارشیں محدود علاقوں میں کافی زیادہ شدت کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ان کے بقول یکم اپریل سے 17 اپریل تک بلوچستان میں معمول سے 330 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں جبکہ پنجاب میں اس عرصے کے دوران معمول سے 175 فی صد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔
شمالی ایران میں شدید سیلاب، نظام زندگی متاثر
شدید بارشوں کے بعد ایران کے جنوبی، شمالی اور مشرقی صوبوں میں شدید سیلابی صورت حال سے بڑا جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ کئی شہروں، قصبوں اور دیہات میں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔
تصویر: isna
شدید بارشیں
ایران میں ویک اینڈ پر پینتیس گھنٹوں میں تین سو ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ ان بارشوں کی وجہ سے کئی شہروں میں سیلاب کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ دریا، ندیاں اور نالے سیلابی ریلوں سے ابل پڑے۔ یہ تصویر گلستان صوبے کے شہر اَق قلا کے نواحی علاقے میں میں کھڑے پانی کی ہے۔
تصویر: Mehr
گلستان صوبے کے دریاؤں کی طغیانی
شدید بارشوں کے بعد مختلف ایرانی صوبوں کے تقریباً سبھی دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہوئی۔ مختلف دریاؤں پر قائم ڈیم بھی پانی سے بھر گئے۔ سیلابی پانی دیہاتی و شہری علاقوں میں پھیلتا گیا۔
تصویر: Irna
شہروں میں دریا
گلستان صوبے کے دریاؤں میں بہنے والے سیلابی پانی نے کھڑی فصلوں کو تباہ کیا۔ کئی شہروں اور قصبات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مختلف شہروں کی گلیاں ندیوں کی صورت اختیار کر گئیں اور لوگوں کا باہر نکلنا محال ہو کر رہ گیا۔
تصویر: Irna
امدادی سرگرمیوں کے لیے ہیلی کاپٹر
سیلاب کے بعد کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایران کی مرکزی حکومت بھی صوبائی حکومتوں کے ساتھ امدادی عمل میں شریک ہوئی۔ خوزستان صوبے کے سَرخس مقام پر ہیلی کاپٹر سے متاثرین کو مدد فراہم کی گئی۔
تصویر: Isna
تہران کے نواحی علاقے میں بھی سیلابی پانی
ایرانی دارالحکومت تہران کے نواحی شہر کرج میں بھی شدید بارشوں سے نظام زندگی متاثر ہوا۔ سڑکوں پر کھڑے پانی سے ٹریفک سمیت شہریوں کے روزمرہ کے معمولات متاثر ہوئے۔
تصویر: Mehr
شہر کے شہر سیلاب کی لپیٹ میں
ایران کے جنوب، مشرق و شمال میں خاص طور پر فارس، جیلان، گلستان اور خوزستان صوبے شدید متاثر ہیں۔ مختلف ڈیموں میں پانی کی سطح بند سے بلند ہوئی اور وہ اورفلو ہو گئے۔ اس تصویر میں سیلابی پانی ایک شہر گنبدِ کاؤس میں سے گزرتا ہوا۔
تصویر: ilna
جنوبی ایرانی صوبہ فارس سیلاب سے شدید متاثر
ایک اور ایرانی صوبے فارس میں بھی شدید بارشوں کے بعد سیلابی صورت حال نے تباہی مچا دی ہے۔ فارس میں کم از کم گیارہ انسانی جانیں سیلابوں اور بارشوں کی نذر ہوئی ہیں۔ تین درجن کے قریب افراد زخمی ہیں۔ اس کے ایک شہر جھرم کے باسیوں کو سیلابی پانی نے گھروں میں رہنے پر مجبور کر دیا۔
تصویر: ISNA
سیلابی پانی سے بھاری مالی نقصان
ایران کے کئی صوبوں کو شدید بارشوں اور دریائی سیلابوں سے شدید مالی نقصان کا سامنا ہے۔ جیلان صوبے میں سیلابی پانی سے مکانات کی تباہی کے علاوہ سڑکیں بھی شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں۔ ابھی تک مجموعی نقصان کا اندازہ نہیں لگایا جا سکا ہے۔
تصویر: Mehr
8 تصاویر1 | 8
ڈاکٹرعظمت کے بقول اگلے چوبیس گھنٹوں میں بالائی پنجاب (راولپنڈی، لاہور، گوجرانوالہ، سرگودھا، فیصل آباد ڈویژن) بالائی خیبرپختونخوا (مالاکنڈ، ہزارہ، مردان، کوہاٹ، پشاور ڈویژن)، اسلام آباد، کشمیر اور گلگت بلتستان میں کہیں کہیں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ مزید بارش کا امکان تو ہے لیکن ان کے بقول تباہی کا باعث بننے والا غیر معمولی بارشی سلسلہ اب اختتام پذیر ہے اور اب بارشوں میں ویسی شدت نہیں ہوگی۔
شوکت علی چدھڑ کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر متاثرہ کسانوں کے لیے امدادی پیکج کا اعلان کرے، اور کسانوں کو اگلی فصل کے لیے کھاد بیج اور زرعی ادویات فری یا سستے نرخوں پر دی جائیں۔ ایک سوال کے جواب میں پنجاب کے وزیر زراعت ملک نعمان کا کہنا تھا کہ نقصانات کے حوالے سے تفصیلی سروے مکمل ہونے کے بعد وزیر اعلٰی پنجاب امدادی پیکج کے حوالے سے فیصلہ کریں گے۔
قدرتی آفات میں لاکھوں اموات، بچا کیسے جائے؟
چار سال پہلے ایک بڑی قدرتی آفت کا شکار ہونے والے جاپان میں اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں پیشگی حفاظتی تدابیر پر بات کی جا رہی ہے کیونکہ مؤثر انتباہی نظاموں کے باوجود اکثر یہ انتباہ بہت تاخیر سے متاثرین تک پہنچ پاتا ہے۔
تصویر: S. Berehulak/Getty Images
پاکستان میں آنے والا شدید سیلاب
29 جولائی 2010ء کو دریائے سوات میں آنے والے سیلاب نے بہت سے مکانات تباہ کر دیے یا پھر پانی کی منہ زور لہریں اُنہیں بہا کر اپنے ساتھ لے گئیں۔ شمالی پاکستان کے اس خطّے کے لیے یہ بہت بڑی تباہی تھی کیونکہ اس خطے میں پہلے ہی زلزلوں کا بھی ڈر رہتا ہے۔ سیلاب سے بچاؤ یا پہلے سے خبردار کرنے والے نظام عنقا ہیں۔ پیشگی انتباہی نظام امدادی تنظیمیں نصب کر رہی ہیں جبکہ سرکاری امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
تصویر: S. Berehulak/Getty Images
فلپائن میں ہائیون نامی طوفان کی تباہ کاریاں
نومبر 2013ء میں 380 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار کی حامل ہواؤں کے ساتھ ہائیون نامی طوفان فلپائن کو روندتا ہوا گزرا۔ اس ملک میں آنے والے طاقتور ترین طوفانوں میں شمار ہونے والے ہائیون کی زَد میں آ کر چھ ہزار سے زیادہ انسان مارے گئے۔ فلپائن کے شہریوں نے اس طوفان سے سبق سیکھتے ہوئے اب پُر خطر علاقوں میں مضبوط مکانات بنانے شروع کیے ہیں اور بر وقت انخلاء بھی اب ممکن ہو سکے گا۔
تصویر: DW/R.I. Duerr
تباہ کاری کے نتائج عشروں پر پھیلے ہوئے
مارچ 2011ء میں جاپان میں آنے والے شدید زلزلے اور اُس کے بعد سمندر میں اُٹھنے والی سونامی لہروں کی زَد میں آ کر پندرہ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔ ساحل پر بنے فوکوشیما کے ایٹمی بجلی گھر کی تباہی سے وسیع تر علاقے تابکاری کی زَد میں آ گئے۔ ایٹمی توانائی ترک کرنے کی بجائے حفاظتی انتظامات بہتر بنانے کا فیصلہ ہوا۔ فعال ایٹمی ری ایکٹر گنجان آباد علاقوں میں ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
دنیا کا خطرناک ترین خطّہ
فروری 2010ء میں ایک طاقتور زلزلے نے چلی کے ساحلوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس زلزلے کے بعد حکام نے پیرو تک کے ساحلی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کو سونامی لہروں سے خبردار کیا لیکن تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود آٹھ سو انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔ چلی میں خاص طور پر زلزلوں کا ڈر رہتا ہے۔ دنیا بھر میں نوّے فیصد زلزلے اِسی خطّے میں آتے ہیں۔
تصویر: Reuters
خطرات کم ہوتے نظر نہیں آتے
بحیرہٴ کیریبین میں واقع ملک ہیٹی میں 2010ء میں ریکٹر اسکیل پر سات کی طاقت کے ایک شدید زلزلے نے دو لاکھ بیس ہزار انسانوں کو موت کی نیند سُلا دیا تھا۔ تب ہیٹی کے ایک ملین شہری بے گھر ہو گئے تھے۔ ہیٹی کے حکام آج بھی اس قابل نہیں ہیں کہ کسی قدرتی آفت کی صورت میں تمام متاثرین کو پیشگی خبردار کر سکیں۔ جنگلات کی کٹائی اور شدید بارشوں کے نتیجے میں اس ملک میں ہر وقت زمینی تودے گرنے کا خطرہ رہتا ہے۔
تصویر: A.Shelley/Getty Images
انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں قدرتی آفات؟
بارہ مئی 2008ء کو جنوبی چینی صوبے سیچوان میں ایک شدید زلزلے کے باعث 80 ہزار انسان مارے گئے، جن میں وہ ہزاروں بچے بھی شامل تھے، جو زلزلے کے وقت اپنی کلاسوں میں تھے۔ زلزلے کا مرکز ایک بڑے شہر کے قریب کئی کلومیٹر کی گہرائی میں تھا۔ بعد میں بھی وہاں مسلسل زلزلے آتے رہے۔ ماہرین کا اندازہ ہےکہ ان زلزلوں کی وجہ وہ بے پناہ دباؤ ہے، جو قریبی زی پنگ پُو ڈیم میں تیز رفتاری کے ساتھ پانی بھرنے سے پیدا ہوتا ہے۔
تصویر: China Photos/Getty Images
میانمار میں ’نرگس‘ کے نتیجے میں سیلاب
2008ء میں مئی کی ایک قیامت خیز رات میں ’نرگس‘ نامی طوفان نے میانمار کے ساحلی علاقوں میں تباہی مچا دی۔ سیلاب کی بلند لہروں سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ایک لاکھ چالیس ہزار انسان لقمہٴ اجل بن گئے۔ چونکہ فوجی حکومت نے بین الاقوامی امداد متاثرین تک پہنچنے نہیں دی تھی، اس لیے قدرتی آفت کے بعد بھی لوگ عرصے تک مصائب کا شکار رہے۔
تصویر: Hla Hla Htay/AFP/Getty Images
زلزلے نے کشمیر کو ہلا کر رکھ دیا
اکتوبر 2005ء میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مظفر آباد کے قریب ایک زلزلے نے 30 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقے کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اس کے اثرات بھارت میں بھی محسوس کیے گئے۔ گنجان آباد علاقوں میں 84 ہزار انسان موت کا شکار ہو گئے۔ زلزلے کے دو مزید طاقتور جھٹکوں اور طوفانی بارشوں نے متاثرین کو اَشیائے ضرورت کی فراہمی مشکل بنا دی۔ اس کے بعد امدادی تنظیموں نے پیشگی انتباہی نظام نصب کیے۔
تصویر: AFP/Getty Images/F. J. Brown
قیمتی گھنٹے ضائع کر دیے گئے
26 دسمبر 2004ء کو بحر ہند میں 9.1 قوت کے ایک زلزلے نے بلند سونامی لہروں کو جنم دیا، جنہیں انڈونیشیا، سری لنکا، بھارت اور تھائی لینڈ کے ساحلوں سے ٹکرانا تھا۔ امریکی محققین آٹھ منٹ بعد ہی جان گئے تھے کہ بڑی تباہی آنے والی ہے لیکن کئی گھنٹے بعد دو لاکھ تیس ہزار بے خبر انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔ 2005ء میں پیشگی انتباہی نظام پر کام شروع ہو گیا لیکن بچاؤ کے انتظامات ابھی بھی ناکافی تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں صدی کا گرم ترین موسم گرما
2003ء میں یورپ کا موسم گرما غیر معمولی طور پر گرم تھا۔ اگست میں درجہٴ حرارت 47.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیا، جو کہ اس براعظم کے لیے ایک ریکارڈ تھا۔ ستّر ہزار ہلاکتیں ہوئیں، بہت سے جنگلات میں آگ لگ گئی، دریا خشک ہو گئے اور کھیت ویران ہو گئے۔ موسمیاتی ماہرین کے خیال میں زمینی درجہٴ حرارت بڑھنے کی وجہ سے خشک سالی، طوفانی ہواؤں اور مسلسل بارشوں جیسے انتہائی موسم آگے چل کر ایک معمول بن سکتے ہیں۔