اف ’ناجائز تعلقات‘، قیامت آنے والی ہے، مغربی ایجنڈا ہمارے معاشرے میں پھیلایا جا رہا ہے، یہ مسلمانوں کی نسل کشی کا طریقہ ہے۔ ایسے بے شمار جملے ان دنوں ہمارے اردگرد سننے کو مل رہے ہیں۔
اشتہار
جی بات ہو رہی ہے گزشتہ دونوں ہمارے قومی میڈیا کی شہ سرخی بننے والی ایک خبر کی، جس کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں ایک درخواست دائر ہوئی تھی، جس میں دو لڑکیوں کی آپس میں شادی کا میرج سرٹیفکیٹ مقامی عدالت نے مبینہ طور پر حقائق دیکھے بغیر جاری کر دیا تھا۔ اس کے بعد عدالت نے دونوں لڑکیوں کو 15جولائی کو طلب کر کے میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
راولپنڈی میں ہونے والی دو لڑکیوں کی شادی کا قصہ سوشل میڈیا میں انتہائی گرم خبر کے طور پر ہر ایک کے لیے باعث دلچسپی رہا۔ پاکستانی معاشرے میں خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ غیر انسانی رویوں اور سنگین مسائل سے دوچار نظر آتیں ہیں۔ ایسے میں ہم جنس پسندی میں دلچسپی رکھتے ہوئے تعلقات قائم کرنے کا مطلب خوفناک انجام کو آواز دینا ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جنس پسند خواتین اپنی شناخت کو مخفی رکھتی ہیں، جس کی وجوہات میں معاشرے کا ڈر، خاندانی روایات سے انحراف اور مذہبی نظام کی خلاف ورزی بھی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہم جنس پسند خواتین کے لیے لیسبئین کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، جو کہ ہمارے معاشرے میں قابل عزت نہیں سمجھاجاتا۔ بات یہ ہے کہ حساس وپیچیدہ معاملات پر جب تک میڈیا کی جانب سے آگاہی فراہم کرنے یا مذہبی حلقوں کی جانب سے ایسے ایشو زیر بحث لا کر درست سمت متعین نہیں جی جائے گئی تو نئی نسل کے لیے ابہام دور نہیں ہو گا۔
مثال کے طور پر گزشتہ عرصے کے دوران پاکستان کے مختلف اخبارات کی ویب سائٹ پر شائع شدہ مواد کے مطابق عورت مارچ کرنے والی خواتین کو کچھ ایسی تنظیمیں سپورٹ کر رہی تھیں، جن کا مقصد معاشرے میں ہم جنس پسندی کو پروان چڑھانا ہے۔
جیسا کہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی سابق ایم این اےعائشہ سیدکا اصرار ہے کہ مذہب میں ہم جنس پسندی کا کوئی تصور نہیں بلکہ یہ غیر شرعی اور انسانی فطرت کے خلاف عمل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشرے میں ہم جنس پسند افراد کی موجودگی بہت پہلے سے ہے مگر امریکا میں شروع ہونے والی ایل جی بی ڈی تحریک نے دنیا بھر میں اس طبقے کی حوصلہ افزائی کی ہے جبکہ اسلام سمیت دنیا بھر کے کسی مذہب میں ہم جنس پسندوں کے تعلقات یا شادی کا تصور موجودہ نہیں ہے۔
مشرف دور حکومت نے اقوام متحدہ کے کنونشن میں ایک معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ جس میں ہم جنسوں کو 'فریڈم آف چوائس‘ کے تحت آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ اس کنونشن میں حکومتی وفد کے ساتھ اپوزیشن نے بھی شمولیت اختیار کی تھی۔ یہ معاہدہ پارلیمنٹ سے پاس کیا گیا، جس پر مذہبی جماعتوں نے اختلاف کرتے ہوئے بھر پور مزاحمت کی تھی۔
ایک ماہر نفسیات نے اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے اس موضوع پر اپنے تجربات اور خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ فطری یا نفسیاتی مسئلہ ہے یا نہیں اس کے بارے میں دنیا بھر میں تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ ان کے بقول برطانیہ میں مخلتف طبی جائزوں میں پہلے ہم جنس پسندی کو ذہنی بیماری قرار دیا تھا مگر اب اسے فریڈم آف چوائس قرار دیا جاتا ہے،''ہمارے معاشرے میں بھی ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو ہم جنس پسندی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ والدین یا دیگر رشتہ داروں کو اگر علم ہو جائے تو انہیں سخت رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایسے ممالک جہاں ہم جنس پسند شادی کر سکتے ہیں
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک بن گیا ہے، جہاں ہم جنس پسند قانونی طور پر شادی کر سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اب تک کن ممالک میں ہم جنس پسندوں کی شادیوں کو ریاستی تحفظ فراہم کیا جا چکا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Yeh
ہالینڈ، سن دو ہزار ایک
ہالینڈ دنیا کا پہلا ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت دی گئی۔ ڈچ پارلیمان نے اس تناظر میں سن دو ہزار میں ایک قانون کی منظوری دی تھی۔ یکم اپریل سن دو ہزار ایک کو دنیا میں پہلی مرتبہ دو مردوں کے مابین شادی کی قانونی تقریب منعقد ہوئی۔ یہ شادی تھی اس وقت ایمسٹرڈیم کے میئر جاب کوہن کی۔ اب ہالینڈ میں ہم جنس جوڑے بچوں کو بھی گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ANP/M. Antonisse
بیلجیم، سن دو ہزار تین
ہالینڈ کا ہمسایہ ملک بیلجیم دنیا کا دوسرا ملک تھا، جہاں پارلیمان نے ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی اجازت دی گئی۔ سن دو ہزار تین میں ملکی پارلیمان نے قانون منظور کیا کہ خواتین یا مرد اگر آپس میں شادی کرتے ہیں تو انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے، جو شادی شدہ جوڑوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس قانون کے منظور ہونے کے تین برس بعد ہم جنس جوڑوں کو بچے گود لینے کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/J. Warnand
ارجنٹائن، سن دو ہزار دس
ارجنٹائن لاطینی امریکا کا پہلا جبکہ عالمی سطح پر دسواں ملک تھا، جہاں ہم جنسوں کے مابین شادی کو ریاستی تحفظ فراہم کیا گیا۔ جولائی سن دو ہزار دس میں ملکی سینیٹ میں یہ قانون 33 ووٹوں کے ساتھ منظور ہوا جبکہ 27 ووٹ اس کے خلاف دیے گئے۔ اسی برس پرتگال اور آئس لینڈ نے بھی ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی بنانے کے حوالے سے قوانین منظور کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/L. La Valle
ڈنمارک، سن دو ہزار بارہ
ڈنمارک کی پارلیمان نے جون سن دو ہزار بارہ میں بڑی اکثریت کے ساتھ ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی۔ اسکینڈے نیویا کا یہ چھوٹا سا ملک سن 1989 میں اس وقت خبروں کی زینت بنا تھا، جب وہاں ہم جنس جوڑوں کو سول پارٹنرشپ کے حقوق دیے گئے تھے۔ ڈنمارک میں سن دو ہزار نو سے ہم جنس پسندوں کو اجازت ہے کہ وہ بچے گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/CITYPRESS 24/H. Lundquist
نیوزی لینڈ، سن دو ہزار تیرہ
نیوزی لینڈ میں ہم جنس پسند مردوں اور خواتین کو شادی کی اجازت سن دو ہزار تیرہ میں ملی۔ یہ ایشیا پیسفک کا پہلا جبکہ دنیا کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کو شادی کی اجازت دی گئی۔ نیوزی لینڈ میں انیس اگست کو ہم جنس پسند خواتین لینلی بنڈال اور ایلی وانیک کی شادی ہوئی۔ فرانس نے بھی سن دو ہزار تیرہ میں ہم جنس پسندوں کو شادی کی قانونی اجازت دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Air New Zealand
آئر لینڈ، سن دو ہزار پندرہ
آئرلینڈ ایسا پہلا ملک ہے، جہاں ایک ریفرنڈم کے ذریعے ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت کا قانون منظور ہوا۔ اس ریفرنڈم میں دو تہائی سے زائد اکثریت نے ہم جنسوں کے مابین شادی کی حمایت کی تو تب ہزاروں افراد نے دارالحکومت ڈبلن کی سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/A. Crawley
امریکا، سن دو ہزار پندرہ
امریکا میں چھبیس جون سن دو ہزار پندرہ کو سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا کہ ملکی آئین ہم جنسوں کی مابین شادیوں کی قانونی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اسی فیصلے کی بدولت امریکا بھر میں ہم جنس جوڑوں کے مابین شادی کی راہ ہموار ہوئی۔ اس سے قبل بارہ برس تک امریکی سپریم کورٹ نے ہم جنس پسند افراد کے مابین شادی کو غیر آئینی قرار دیے رکھا تھا۔
جرمنی یورپ کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی گئی۔ تیس جون کو بنڈس ٹاگ میں 226 کے مقابلے میں یہ قانون 393 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ اگرچہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس قانون کے خلاف ووٹ دیا تاہم انہوں نے اس کے منظور کیے جانے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/O. Messinger
آسٹریلیا، سن دو ہزار سترہ۔ اٹھارہ
آسٹریلوی میں ایک پوسٹل سروے کرایا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اس ملک کی اکثریت ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی حمایت کرتی ہے تو ملکی پارلیمان نے دسمبر 2017 میں اس سلسلے میں ایک قانون منظور کر لیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Hamilton
تائیوان، سن دو ہزار انیس
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک ہے، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ سترہ مئی سن دو ہزار سترہ کو ملکی پارلیمان نے اس حوالے سے ایک تاریخی مسودہ قانون منظور کیا۔ اس قانون کی منظوری پر صدر نے کہا کہ ’حقیقی برابری کی طرف یہ ایک بڑا قدم ہے‘۔
تصویر: dapd
10 تصاویر1 | 10
ہم جنس پسندی میں دلچسپی رکھنے والی خواتین سے سوشل میڈیا کے ذریعہ رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ بیرون ملک جانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی اسلام کی ماننے والی ہیں لیکن اگر گھر والوں کو ان کے تعلقات کے بارے میں معلوم ہو جائے تو زندگی مشکل اور خاندان یا رشتہ داروں کی معاشرتی لا تعلقی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔گھر والوں کی طرف سے شادی کا علیحدہ دباؤ رہتا ہے۔ ملک کے شہری ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے تعلقات، احساسات بیان کر نے سے قاصر ہیں۔
ہم جنس پسند خواتین کے بقول ملک کا قانون تیسری جنس کے حامل افراد کو تو پہچان دے سکتا ہے مگر انہیں آزاد زندگی نہیں فراہم کر سکتا کیوں کہ اس معاشرے میں ہر مسئلے میں مذہب کوشامل کر دیا جاتا ہے اور دوسری طرف بے شمار ہم جنس پسند مرد اور خواتین بھی اپنے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے ہیں۔
ان کے توسط سے دیگر ہم جنس پسند خواتین سے بھی بات کرنے کا موقع ملا۔ ایک ہم جنس پسند خاتون کے مطابق اگر گھر والوں کو ان کے جنسی رویوں کے بارے میں علم ہو جاتا تو وہ انہیں نفسیاتی مریض سمجھتے اور علاج کراتے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے، ''ہمارا مستقبل چار دیواری کے اندر ہی قید ہے اور بہت سی ہم جنس پسند خواتین مسائل سے دوچار ہو کر خودکشی کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ اپنی شناخت کو ظاہر نہ کرنے میں ہی ہماری زندگی ہیں۔‘‘
ایک اندازہ کے مطابق پاکستان میں ہم جنس پسند خواتین بڑی تعداد ملک کے بڑے شہروں میں رہائش اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ جبکہ کچھ ہم جنس پسند خواتین ایسی بھی ہیں جو اپنی شناحت ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے سماجی، معاشرتی، معاشی اور نفسیاتی مسائل سے دوچار ہو کر منشیات کے استعمال کے علاوہ اس کی فروخت جیسی غیر قانونی سرگرمیاں کا حصہ بن جاتی ہیں۔
ساتھ ہی بے روزگار ہونے کے باعث سہارے کی تلاش میں رہتی ہیں اور اس وجہ سے خاندانی نظام سے دوری اختیار کرتی جاتی ہیں۔ ملک میں کوئی بھی ادارہ، این جی او ہم جنس پسند افراد کے بارے میں بات کرنے سے گریزاں ہیں بلکہ کچھ طبقے ان کی موجودگی سے بھی انکاری ہیں۔ پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پر بھی کوئی حکومتی یا اپوزیشن لیڈر بات کرنے کو تیار نہیں۔
ایشیا میں ’ایل جی بی ٹی‘ کی مساوی حقوق کی جنگ
گذشتہ چند سالوں میں جہاں ایک طرف ایشیائی ممالک میں ایل جی بی ٹی افراد کے حقوق کی صورتحال بہتر ہوئی ہے وہیں ہم جنس پرستوں کو اب بھی وسیع امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
بھارتی قوس قزح تحریک
ستمبر 2018 ء میں ایل جی بی ٹی افراد کے لیے رنگین پرچم لہرائے گئے۔یہ وہی وقت تھا جب بھارتی سپریم کورٹ نے سیکشن 377 کے تحت ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت تو دے دی لیکن ہم جنس پرستوں کی شادیوں نے کا معاملہ ابھی بھی دور کی بات ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Nath
مخنث ملکہ حسن
سن 2019 میں تھائی لینڈ میں ٹرانسجنڈرز کا ایک مقابلہ حُسن منعقد کیا گیا جس میں ایک مخنث ملکہ حسن مقابلہ جیت گئیں۔ تھائی لینڈ میں رواں برس ہونے والے پارلمیانی انتخابات میں ایک مخنث امیداور کے حصہ لینے کی وجہ سے یہ موضوع سیاسی سطح پر بھی زیادہ توجہ حاصل کرتا جا رہا ہے۔ تھائی لینڈ میں ہم جنس پرست ابھی بھی قانونی طور پر شادی نہیں کر سکتے۔
تصویر: Reuters/J. Silva
تائیوان کے پر امید ہم جنس پرست
تائیوان کے ہم جنس پرست سن 2018 میں خاصے پر امید تھے کہ انہیں شادی کی قانونی اجازت مل جائے گی مگر، ان کی امیدیں مٹی میں مل گئیں جب تائیوانی ووٹرز نے ریفرینڈم کے ذریعے اسے نامنظور کر دیا۔
تصویر: Reuters/A. Wang
انڈونیشیا کے ہم جنس پرست
ہم جنس پرستوں اور ٹرانسجینڈر افراد کو انڈونیشیا میں اپنے جنسی رجحان کو چھپانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔اس معاشرے میں ہم جنس پرستی کے خلاف گہرا تعصب پایا جاتا ہے۔یہاں ایل بی جی ٹی کے خلاف مظاہرے اکثر ہوتے ہیں. ایل بی جی ٹی حقوق کی حمایت کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں نفرت اور انتہا پسندی کا شکار ہیں۔
ملائیشیائی وزیر کی جانب سےایل بی جی ٹی کمیونٹی نامنظور
ملائیشیا کے سیاحتی وزیر محمد الدین کیٹاپی سے ایک صحافی نے سوال پوچھا کہ،کیا آنے والے سیاحتی میلے ہم جنس پرستوں کو خوش آمدید کہا جائے گا؟ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ،’’مجھے نہیں لگتا کہ ہمارا ملک اس کی حمایت میں ہے۔‘‘ جبکہ دیگر وزراء نے بھی حقارت آمیز جوابات دئیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
آزادی کے انمول لمحات
سنگاپور میں اوپن ایئر میں منعقد ہونے والی گے پریڈ کے شرکاء پوری طرح سے اس ایوونٹ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔اگرچہ سنگا پور بہت سے اعتبار سے بہت ترقی پسند ہے تاہم یہ جزیرہ نما سٹی اسٹیٹ جنسی معاملات میں نہایت قدامت پسند ہے۔ یہاں ایک ہی جنس سے تعلق رکھنے والے انسانوں کا ایک دوسرے سے رشتہ ہونا نہ صرف جرمانے کی وجہ سے مہنگا پڑ تا ہے بلکہ کبھی کبھی تو یہ جیل تک پہنچا دینے کا سبب بن جاتا ہے۔