’ایک لڑکی کی کہانی جسے گورنر کے بیٹے نے ریپ کیا‘
15 نومبر 2017پاکستانی فلم ’ورنہ‘ کا نام پاکستان میں سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈنگ ہیش ٹیگ بنا ہوا ہے۔ یہ فلم ایک ایسی لڑکی کی کہانی پر مبنی ہے، جسےگورنر کے بیٹے نے ریپ کیا ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار شعیب منصور ہیں اور اس فلم میں ماہرہ خان مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔
پاکستان میں کئی طبقے اس فلم پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے کی مذمت کر رہے ہیں۔ پاکستان میں جنسی زیادتی کی شکار خواتین کی بہبود و فلاح کے لیے کام کرنے والی تنظیم مہرگڑھ نے ایک ٹوئٹ میں لکھا،''یہ فلم پاکستان کی خواتین کے لیے ہے، اسے سب کو دکھانا چاہیے، پاکستان میں بھی اور پاکستان سے باہر بھی۔‘‘
اس فلم کے موضوع پر ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سماجی کارکن گلالئی اسماعیل نے کہا،’’ریپ پاکستان کا ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے، حال ہی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک لڑکی کو برہنہ کرتے ہوئے بازار میں گھومایا گیا تھا اور مقامی جرگے بعض کیسز میں ’بدلے کے ریپ‘ کے فیصلے سناتے ہیں۔‘‘ گلالئی نے کہا کہ پاکستان میں ہر روز اوسطاﹰ تین خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اگر ہم معاشرے سے اس جرم کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں ریپ کے بارے میں بات کرنا ہوگی۔
پاکستانی اداکار علی رحمان نے اس فلم کی حمایت میں ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا،’’اس فلم کے مواد کی ایک مسئلے پر روشنی ڈالنے کی وجہ سے تعریف کرنی چاہیے۔‘‘
بے نظیر شاہ نے سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا،’’اس سال 135 مردوں، خواتین اور بچوں کا گینگ ریپ کیا گیا۔ لیکن ہم آج اس موضوع پر بنائی جانی والی فلم پر بات بھی نہیں کرنا چاہتے۔‘‘ سماجی کارکن ثمر من اللہ نے ٹوئٹر پر لکھا،’’ کم عمری کی شادیوں اور جرگوں کے معصوم لڑکیوں کو ریپ کرنے اور ان کو ذلیل کرنے جیسے دقیانوسی فیصلوں پر پابندیاں عائد کریں نا کہ ’ورنہ‘ جیسی فلموں پر جو لوگوں کی ذہنیت کو تبدیل کر سکتی ہیں۔‘‘
کچھ میڈیا رپورٹوں کے مطابق حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس فلم پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی ہے اور صرف اس فلم کے فُل بورڈ ریویو کے لیے کہا گیا ہے۔