کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ آپ دوپہر یا رات کے کھانے کے لیے بازار سے ایک مرغی خریدنے جائیں اور اس کی قیمت قریب ڈیڑھ کروڑ ہو۔ اتنی زیادہ قیمت کہ ایک یا ڈیڑھ کلو گرام کی مرغی کرنسی نوٹوں کے انبار کے پیچھے جیسے چھپ گئی ہو۔
اشتہار
یہ صورت حال کوئی مذاق یا ’بھیانک‘ خواب نہیں بلکہ سیاسی عدم استحکام اور شدید نوعیت کی اقتصادی بدحالی کے شکار جنوبی امریکی ملک وینزویلا میں ماضی قریب میں جگہ جگہ نظر آنے والا سچ ہے۔ اس کی وجہ اس ملک میں، جو ماضی میں اسپین کی نوآبادی رہا ہے، افراط زر کی وہ ناقابل یقین شرح ہے، جس کے لیے ’آسمان سے باتیں کرنے‘ کا محاورہ بھی غلط بیانی محسوس ہوتا ہے۔
وینزویلا میں افراط زر اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ اب وہاں کی قومی کرنسی بولیوار کی قدر نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور عام شہریوں نے ملکی کرنسی کو محض کاغذ کے بے وقعت ٹکڑے سمجھنا شروع کر دیا ہے۔
وینزویلا کو، جو تیل کی دولت سے مالا مال بھی ہے، کس طرح کے حالات کا سامنا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس ملک کی معیشت کا حجم صرف 2017ء میں قریب 16 فیصد تک سکڑ گیا۔ وہاں مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف نے سال رواں (2018ء) کے لیے وہاں افراط زر کی شرح کا اندازہ قریب 14 لاکھ فیصد لگایا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ کہ اگر آپ بازار سے پکانے کے لیے کوئی مرغی خریدنے جائیں تو اس کے لیے جو قیمت کچھ عرصہ پہلے تک ادا کرنا پڑتی تھی، وہ 14.6 ملین یا قریب ڈیڑھ کروڑ بولیوار بنتی ہے۔ اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ ڈیڑھ کروڑ بولیوار کی یہ قیمت ایک امریکی ڈالر سے بھی کم یعنی صرف 80 سینٹ اور یورو میں قریب 70 یورو سینٹ کے برابر بنتی ہے۔
وینزویلا کے شہریوں نے اس صورت حال کا ایک تخلیقی حل یہ بھی نکالا کہ انہوں نے ملکی کرنسی کو رنگین کاغذ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کرنسی نوٹوں سے کاغذی کوبرا، راج ہنس اور بطخیں بنا کر بیچنا شروع کر دیں۔ یعنی اگر کرنسی کی کوئی وقعت نہیں رہی، تو کم از کم فنکارانہ محنت کے معاوضے کے طور پر انہیں معمولی سی آمدنی ہو جاتی ہے۔
کراکس حکومت نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ لوگوں کو کرنسی نوٹوں کی بوریاں اٹھانے سے بچانے کے لیے کرنسی اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔ پرانے بولیوار کے نوٹوں سے، جو بطور کرنسی بولیوار فیورٹے کہلاتی تھی، پانچ صفر غائب کر دیے گئے۔ نئے بولیوار کو بولیوار سوبیرانو کا نام دیا گیا۔
یوں ایک ملین (1000000)پرانے بولیوار کا نوٹ 00000 غائب کر دینے سے 10 کا نوٹ بن گیا۔ نئے بولیوار کا سب سے بڑا نوٹ بھی 500 بولیوار سوبیرانو کا ہے۔ لیکن ملک میں مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ اس سب سے بڑے نوٹ کے ساتھ بھی آپ زیادہ سے زیادہ ایک کلوگرام ٹماٹر یا پیاز ہی خرید سکتے ہیں۔
ان کرنسی اصلاحات کا ایک ضمنی فائدہ یہ ہوا کہ پہلے جو ایک کلو گرام ٹماٹر پانچ کروڑ بولیوار کے خریدے جا سکتے تھے، اب ان کے لیے قریب 500 بولیوار ادا کرنا پڑتے ہیں۔
ایک کلو گرام ٹماٹر یا پیاز تو پہلے بھی ایک چھوٹے سے شاپنگ بیگ میں پورے آ جاتے تھے لیکن اب ان کی قیمت بوری میں بھر کر نہیں بلکہ نوٹوں سے بھرے دونوں ہاتھوں سے ادا کی جاتی ہے۔
’قلت، ہنگامہ آرائی،خشک سالی‘ وینزویلا مشکل میں
وینزویلا کا شمار تیل برآمد کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں نے اس ملک کو مالی مشکلات کا شکار کر دیا ہے۔ گزشتہ برس کے دوران وینزویلا میں افراط زر میں 180 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EFE/M. Gutiérrez
افراط زر معیشت کو نگل رہی ہے
ضرورت سے زیادہ افراط زر سے وینزویلا میں کاروبار زندگی ایک طرح سے مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ اس سے مقامی اور بین الاقوامی کاروباری اداروں کو شدید مسائل کا سامنا ہے۔ کرنسی کی قدر مسلسل نیچے جا رہی ہے اور حکومت نے بولیواز کی امریکی ڈالر میں منتقلی کو مشکل بنا دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Ismar
اشیاء کی قلت
اس لاطینی امریکی ملک میں کھانے پینے کی اشیاء کی بھی شدید قلت ہو چکی ہے۔ اکثر سپر مارکیٹوں کی الماریاں خالی دکھائی دیتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Barreto
قطار در قطار
کھانے پینے کی اشیاء کی قلت کا مطلب یہ ہے کہ چیزیں خریدنے کے لیے شہریوں کو لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ صرف مخصوص مقامات پر ہی ضروری اشیاء دستیاب ہیں۔ یہ کاراکس کے ایک غریب علاقے میں ایک دکان کے باہرکا منظر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Schemidt
دستخط جمع کیے جا رہے ہیں
وینزویلا میں حزب اختلاف کے رہنما چاہتے ہیں کہ ملک میں ایک ریفرنڈم کرایا جائے اور اس مقصد کے لیے شہریوں کے دستخط جمع کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے انہیں کم از کم بیس لاکھ دستخطوں کی ضرورت ہے اور ابھی تک اٹھارہ لاکھ افراداس دستاویز پر دستخط ثبت کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gutierrez
ریفرنڈم کی اجازت
حزب اختلاف کے رہنما ہینریکے کاپرلس نے صحافیوں کو بتایا کہ ملکی الیکشن کمیشن نے ریفرنڈم کرانے کے اجازت دے دی ہے۔ لیکن صدر نکولس مادورو کی حکومت اس سلسلے میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gutierrez
ریفرنڈم کے لیے احتجاج
شہری حکومت سے ریفرنڈم جلد از جلد کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اکثر مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Bello
طلبہ احتجاج
احتجاج کے معاملے میں طلبہ بھی پیچھے نہیں ہیں۔ یہ لوگ ملک کی کمزور ہوتی ہوئی معیشت اور ریفرنڈم کو ملتوی کرنے کی حکومتی کوششوں کے خلاف سراپا احتجاج بننے ہوئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Schemidt
خشک سالی
وینزویلا کے مسائل میں شدید خشک سالی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ ملک کے ایک بڑے ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم میں اب پانی کی بجائےصرف مٹی اور کیچڑ ہی دکھائی دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/C.G. Rawlins
تباہی کی شدت
ملکی توانائی کا سب سے زیادہ انحصار گوری ڈیم پر ہے اور یہیں سے پانی کی دیگر ضروریات بھی پوری کی جاتی ہیں۔ اس کا شمار دنیا کے بڑے ڈیموں میں ہوتا ہے۔ تاہم پانی کا ذخیرہ کم ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ صحرا میں تبدیل ہو چکا ہے اور بجلی کی بھی شدت قلت ہے۔
تصویر: Reuters/C.G. Rawlins
صحت کے شعبے کی زبوں حالی
اولیور سانچیز کی عمر آٹھ سال ہے۔ یہ اپنے ہاتھوں میں جو کارڈ اٹھائے ہوئے ہے اس پر درج ہے، ’’میں صحت مند ہونا چاہتا ہوں، میں امن چاہتا ہوں میں ادویات چاہتا ہوں۔‘‘ سانچیز کاراکس میں ادویات کی عدم دستیابی کے خلاف کیے جانے والے احتجاج میں شریک تھا۔ وینزویلا میں آج کل ادویات بھی نایاب ہو چکی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Cubillos
صدر مادورو ہدف تنقید
وینزویلا کی معیشت میں یہ ابتری عالمی منڈی میں خام تیل کی گرتی ہوتی ہوئی قیمتوں سے ہے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران اس ملک کی معیشت تقریباً پچاس فیصد سکڑ گئی ہے۔ عوام صدر نکولس مادورو کو بجلی اور اشیاء خوردو نوش کی قلت کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔