1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ کیساتھ تعلقات خوشگوار ہیں: باجوہ

2 اپریل 2022

افواج پاکستان کے سربراہ نے کہا ہے کہ پاکستان کےامریکہ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں اور اسلام آباد، واشنگٹن کے ساتھ ان تعلقات کو مزید فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ جنرل باجوہ نے یہ بیان سکیورٹی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔

Kombobild Oberster Gerichtshof in Islamabad und Qamar Javed Bajwa
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem/SS Mirza

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہفتے کے روز اسلام آباد منعقدہ دو روزہ سکیورٹی ڈائیلاگ 2022 ء اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات بہت اچھے ہیں اور انہیں مزید وسعت دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاہم پاکستان پاک امریکی تعلقات کو مزید مربوط بنانے کے لیے دیگر ممالک کیساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کو داؤ پر نہیں لگانا چاہتا۔ جنرل باجوہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب ابھی ایک روز پہلے یعنی جمعے کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا تھا کہ انہوں نے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کو ایک احتجاجی نوٹ بھیج دیا ہے جس میں انہوں نے اپنے اقتدار کی بے دخلی کی کوششوں میں 'غیر ملکی سازش‘ کی نشاندہی کی تھی۔ وزیر اعظم کی طرف سے دیے جانے والی اس بیان کے بعد کئی حلقوں میں اس پر تنقید کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ اس بیان سے پاکستان اور امریکہ کے دیرینہ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔

ہفتے کو سکیورٹی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے جنرل باجوہ کا کہنا تھا،''امریکہ کیساتھ ہمارے اسٹریٹیجک تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ بھی ہے۔‘‘عمران خان کا قوم سے خطاب: 'آخری دم تک مقابلہ کروں گا‘

 

پاکستان کے آرمی چیف نے چین کیساتھ پرانے تعلقات کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ چین کیساتھ بھی پاکستان کے بہت قریبی سفارتی اور تجارتی دوطرفہ تعلقات ہیں۔ جنرل باجوہ کے بقول،'' ہم دونوں ممالک کیساتھ تعلقات استوار رکھتے ہوئے انہیں وسعت دینا چاہتے ہیں۔ کسی ایک ملک کے ساتھ تعلقات کو دوسرے ملک کے تعلقات پر اثر انداز نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ پاکستان کے آرمی چیف کا کہنا تھا،'' ہم کیمپ پالیٹکس‘ پر یقین نہیں رکھتے۔‘‘

 

واضح رہے کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو اتوار کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ضمن میں سخت سیاسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اراکین پارلیمان کی طرف سے عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے علیحدہ کرنے کی اپوزیشن جماعتوں کی مہم جب سے زور پکڑتی دکھائی دی تب سے عمران خان اپنے خلاف اس مہم کو بیرونی سازش قرار دے رہے ہیں۔

فروری میں پاکستانی وزیر اعظم نے ماسکو کا دورہ کیا تھا۔ عمران خان کو جب سے سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے۔ وہ اپنے اقتدار میں رہنے کی مہم چلا رہے ہیں اور اس دوران یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ ان کی برطرفی کی مہم کو بیرونی سازش اور فنڈنگ کے ساتھ پشت پناہی حاصل ہے۔

’سیاسی جماعتوں کو جنرل باجوہ کے بیان کی مخالفت نہیں کرنا چاہیے‘

اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے سے وزیر اعظم کے بیانات اور نوٹس پر تبصرہ کرنے کی گزارش کا فوری طور سے کوئی جواب نہیں  دیا گیا۔ دریں اثناء وائٹ ہاؤس نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ امریکہ عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کی کوششوں میں شامل ہے۔

 

یہ امر اہم ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نے روس کے دورے پر ماسکو میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے فروری میں جس روز ملاقات کی تھی اُسی دن روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔

جنرل باجوہ نے اسلام آباد میں اسٹریٹپیجک ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے روس یوکرین تنازعے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے روس کے ساتھ بھی دیرینہ دوستانہ تعلقات رہے ہیں تاہم پاکستانی آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ،'' روس کے جائز خدشات کے باوجود روس کی ایک چھوٹے ملک کے خلاف جارحیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘  

 

ک م/ ع ح) روئٹرز(

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں