ایک ملین سے زائد کورونا کیسز، بھارت بھی فہرست میں شامل
17 جولائی 2020
جمعے کے روز بھارتی وزارت صحت نے بتایا کہ ملک میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد ایک ملین سے زائد ہو گئی ہے۔ اس طرح بھارت اب وہ تیسرا ملک ہے، جہاں اس وائرس کے مصدقہ کیسز کی تعداد دس لاکھ سے زائد ہے۔
اشتہار
امریکا اور برازیل کے بعد اب بھارت وہ تیسرا ملک ہے، جہاں نئے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک ملین کا ہندسہ عبور کر چکی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اب یہ وائرس بھارت کے بڑے شہروں سے چھوٹے قصبوں اور دیہات تک میں پھیلتا جا رہا ہے۔ بھارت کی مجموعی آبادی یعنی ایک اعشاریہ تین ارب کو دیکھا جائے، تو یقیناﹰ ایک ملین کوئی بڑا عدد نہیں ہے، تاہم مبصرین کے مطابق یہ تعداد آئندہ مہینوں میں بہت بڑھ سکتی ہے اور ملک کا نظام صحت مفلوج ہو سکتا ہے۔
حالیہ کچھ دنوں میں بھارت میں اس وائرس کے پھیلاؤ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتے کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں روس تیسرے نمبر پر تھا، تاہم اب بھارت اس سے آگے نکل چکا ہے۔ حکام نے وائرس کے زیادہ پھیلاؤ والے علاقوں میں ایک مرتبہ پھر لاک ڈاؤن نافذ کر دیا ہے۔ ریاست بہار کے کئی علاقے اور بنگلور شہر اب اس لاک ڈاؤن کی زد میں ہیں۔ تاہم بھارت میں لاک ڈاؤن میں بھی حکام کو لوگوں کو گھر تک محدود رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
جمعے کے روز بھارت میں کورونا وائرس کے قریب 35 ہزار نئے کیسز سامنے آئے ہیں اور اب یہ مجموعی تعداد دس لاکھ تین ہزار آٹھ سو بتیس ہو چکی ہے۔ اس عالمی وبا کے نتیجے میں بھارت میں ہونے والی مجموعی ہلاکتیں بھی ساڑھے پچیس ہزار سے زائد ہو چکی ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ امریکا میں نئے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد تین اعشاریہ چھ ملین جب کہ برازیل میں دو ملین کے قریب ہے، جب کہ ان دونوں ممالک کی آبادی بھارتی آبادی کے ایک تہائی سے بھی کم ہے۔
ماہرینِ وبائی امراض کا کہنا ہے کہ ابھی بھارت اس بیماری کے نکتہ عروج سے کئی ماہ دور ہے۔ عوامی صحت فاؤنڈین آف انڈیا سے وابستہ ماہر برائے وبائی امراض گریدھار بابو کہتے ہیں، ''آئندہ چند ماہ میں ہمیں زیادہ کیسز دیکھنے کو ملیں گے۔‘‘
سکھوں کے گردواروں نے لاکھوں افراد کو بھوک سے بچا لیا
بھارت میں کورونا وائرس کی وبا کے مشکل اوقات کے دوران دہلی کی سکھ برادری گردواروں میں قائم باورچی خانوں میں روزانہ کھانا پکا کر لاکھوں ضرورت مند افراد میں مفت لنگر تقسیم کر رہی ہے۔
تصویر: DW/S. Chabba
دہلی کے تاریخی گردوارے
بھارت میں تقریباﹰ 21 ملین سکھ افراد بستے ہیں۔ اس طرح سکھ مذہب بھارت کا چوتھا بڑا مذہب قرار دیا جاتا ہے۔ ’سیوا‘ یعنی ’خدمت‘ سکھ مذہب کا ایک اہم ستون ہے۔ سکھ عبادت گاہ گردوارہ میں قائم لنگر خانوں میں لاکھوں افراد کے لیے مفت کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/S. Chabba
کورونا وائرس سے بچنے کے حفاظتی اقدامات
بھارت میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے رواں برس مارچ کے اواخر تک دہلی کے تمام گردواروں کے دروازے عوام کے لیے بند رہے۔ تاہم گردواروں کا عملہ روزانہ مذہبی سرگرمیاں اور ضرورت مند افراد کی خدمت جاری رکھےہوئے تھا۔ گزشتہ ماہ سے ملک بھر میں مذہبی مقامات دوبارہ سے کھول دیے گئے اور عوام کے لیے جراثیم کش مواد کا استعمال، چہرے پر ماسک اور جسم کا درجہ حرارت چیک کروانے جیسے احتیاطی ضوابط لاگو کر دیے گئے۔
تصویر: DW/S. Chabba
سکھوں کے کمیونٹی کِچن
سکھ مذہب کی تعلیمات کے مطابق عقیدت مندوں کو خالی ہاتھ گھر واپس نہیں جانا چاہیے۔ گردوارے کی یاترا عموماﹰ تین چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ سکھ گرووں کا درس، گندم کے آٹے سے تیار کردہ ’پرشاد‘ (نیاز)، اور کمیونٹی کچن میں پکائے گئے لنگر کو یاتریوں میں مفت تقسیم کرنا۔
تصویر: DW/S. Chabba
روزانہ لاکھوں افراد کا کھانا پکانا
گردوارہ کے باورچی خانوں میں لاکھوں افراد کے کھانے کی تیاری ہر صبح تین بجے سے شروع ہو جاتی ہے۔ مرد اور خواتین ایک ساتھ مل کر دال، روٹی اور چاول پکاتے ہیں۔ لنگر کا اہتمام دہلی کی ’سکھ گردوارہ مینیجمنٹ‘ اور سکھ عبادت گزاروں کے چندے کی مدد سے کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/S. Chabba
بیس سے زائد مقامات پر مفت لنگر کی سہولت
دہلی کے مضافاتی شہروں غازی آباد اور نوئڈا میں بھی مفت لنگر تقسیم کیا جاتا ہے۔ کھانے کو ٹرک میں لوڈ کر کے متاثرہ علاقوں میں ترسیل کیا جاتا ہے۔ سرکاری حکام اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی مفت کھانے کے لیے گردوارہ سے رجوع کرتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Chabba
ضرورت مندوں کے لیے خوراک اور راشن
سکھوں کے لیے کسی ضرورت مند کی مدد کرنے کا کام ایک اعلیٰ فضیلت سمجھی جاتی ہے۔ غریب اور مستحق افراد طویل قطاروں میں روزانہ کھانے کا انتظار کرتے ہیں، جن میں نوجوان مرد اور خواتین، اسٹریٹ چائلڈ، معذور اور معمر افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ خاندان راشن وصول کرتے ہیں کیونکہ ان کی آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔
تصویر: DW/S. Chabba
انتہائی منظم طریقہ کار
یہاں دو الگ الگ قطاریں بنائی گئ ہیں۔ ایک مردوں کے لیے اور دوسری خواتین، بوڑھے اور معذور افراد کے لیے۔ کھانا تقسیم کرنے کے نظام کا اچھا بندوبست کیا گیا ہے لیکن ایک اعشاریہ تین ارب سے زائد آبادی کے ملک میں سماجی دوری کے ضوابط پر عملدرآمد یقیناﹰ مشکل ہے۔
تصویر: DW/S. Chabba
دھوپ میں کھانے کا انتظار
اس قطار میں کھڑے بہت سارے افراد کے لیے یہ ایک وقت کا کھانا، دن بھر کی واحد خوراک ہے۔ بعض افراد اپنے دیگر ضرورت مند دوستوں اور ساتھیوں کے لیے بھی کھانا ساتھ لے کر جاتے ہیں کیونکہ وہ گردوارے کے ٹرک تک نہیں آسکتے۔ لنگر کے یہ ٹرک ایسے مقامات تک پہنچتے ہیں جہاں ابھی تک سرکاری یا غیر سرکاری تنظیمیں پہنچنے سے قاصر رہی ہیں۔
تصویر: DW/S. Chabba
8 تصاویر1 | 8
ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم جوں جوں آگے بڑھیں گے، ہمارا واحد مقصد ہلاکتوں کی تعداد میں کمی ہو جائے گا۔ اہم ترین مسئلہ جو ہمیں دیکھنے کو مل سکتا ہے وہ یہ ہو گا کہ ہسپتالوں کے بستر کس طرح بہتر انداز سے میسر آئیں۔‘‘
یہ بات بھی اہم ہے کہ حالیہ کچھ عرصے میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے بھارتی نظام صحت کی کمزوروں کو بھی واضح کیا ہے۔ صحت کے شعبے میں خرچ کیا جانے والا کم سرمایہ اور ہسپتالوں میں بستروں کی کمی جیسے امور اب بھارت میں زیربحث ہیں۔