پاکستانی حکومت نے بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا ایک برس مکمل ہونے پر ایک منٹ کی خاموشی کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر اور لداخ کی خصوصی حیثیت پچھلے سال ختم ہوئی، اگلا ممکنہ پلان ان علاقوں میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہو سکتا ہے۔ بھارتی سرکار نے ایک آئینی ترمیم کر کے ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر پھینکا تو ارتعاش تو ہوئی ہی لیکن ساتھ ہی بے چینی کی لہریں بھی اٹھیں۔
کشمیری ایک طویل عرصے سے آزادی حاصل کرنے یا پھر اسی حال میں ایڈجسٹ ہونے کا ہنر سیکھ رہے تھے۔ کچھ بھی ٹھیک نہ تھا مگر یہ معاملہ جہاں ہے، جیسا ہے کہ بنیاد پر چل ہی رہا تھا۔ سیانے کہتے ہیں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو محض سرحدی اور علاقائی تنازعہ نہیں بلکہ اب مذہب اور انا کی جنگ بن چکا ہے۔
کبھی نقاب پوش کشمیری لڑکیاں پاکستانی ترانہ گا دیتیں اور ان کی ویڈیو وائرل ہو جاتی تو ہم بھی خوش ہو لیتے کہ دیکھو بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ہوتے ہوئے بھی ان کے دل ہیں پاکستانی۔ کوئی برہان وانی نامی نوجوان آزادی کے خاطر جان کھو دیتا تو ہمیں پوسٹر ہیرو مل جاتا کہ دیکھو لوگو! 'شوق شہادت ابھی زندہ ہے‘۔
پانچ اگست دو ہزار انیس سے پہلے ادھر پاکستان میں بھی یہ کیفیت تھی کہ حالات چل سو چل ہی تھے۔ ہم پانچ فروری کو یوم کشمیر منا لیتے تھے، کیونکہ 'مظلوم‘ کا ساتھ نبھانا اچھا لگتا ہے۔ پاکستانی ستائیسں اکتوبر کو کشمیر پر 'قبضے کی برسی‘ بھی منا لیتے تو ولولے گرم رہتے۔ چھبیس جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ منا لیتے تو گویا بھارت کے خلاف احتجاج کی آخری حجت بھی تمام ہو جاتی ہے۔
پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر کچھ دہائی قبل سارا سال کشمیر کے حوالے سے کوئی نہ کوئی نشریاتی گھنٹہ مقرر ہوتا تھا، پھر یہ گھنٹہ سمٹ کر ایک ترانے تک آیا، یہاں تک کہ پچھلے سال پانچ اگست سے پہلے یہ ترانے بھی شاذ و نادر ہی سنائی دیے۔
قومی اسمبلی سے کشمیر کو 'شہہ رگ‘ کہہ دینے والی ایک قرار داد، 'دشمن‘ کے دانت کھٹے کرنے والا ایک ملٹری بیان، اپوزیشن کا یہ کہنا کہ کشمیر کے معاملے پر حکومت سنجیدہ نہیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تقریر میں وزیر اعظم کے خطاب میں دس منٹ، کسی تُرک رہنما کے دو چار بیانات۔ یوں کشمیر پر روایتی جوش و جذبے کے ساتھ ہماری اللہ اللہ خیر صلا ہو جاتی۔
اچھا خاصا سناٹا چل رہا تھا، یہ تو برا ہو مودی سرکار کا کہ جس نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے سارے خطے میں سکون و تسلسل کی ایسی تیسی کر دی۔ اب نہ کسی ولولہ انگیز ترانے میں وہ سواد رہا نہ کشمیر کی جلتی وادی جیسے نام کے ڈرامے کوئی تشفی دے سکتے ہیں، نیویارک کے ٹائم اسکوائر سے لے کر لندن کے ٹریفلگر اسکوائر تک لگے فری کشمیر کے بینر بھی بس خانہ پُری لگتے ہیں۔
پانچ اگست دو ہزار انیس کے بعد اب پاکستانی دنیا کے منصفوں سے نہیں اپنے ملک کے حکمرانوں سے جواب طلب کرتے ہیں کہ جناب ہم ہر جمعے کو کشمیر کے نام پہ کیوں کھڑے ہوں؟ کشمیر ہائی وے کو نام بدل کر سری نگر ہائی وے کہہ لینے سے مظلوم کشمیری بھائی بہنوں کی امداد کیونکر ہوسکے گی ؟
آخر کب تک سُروں کے سہارے بھارت کو یہ کہتے رہیں گے کہ جا جا نکل جا؟ کیا واقعی لائن آف کنٹرول پر اظہار یکجہتی کے دورے 'بھارتی جبر‘ میں پسے کشمیریوں کے لیے کوئی معنی رکھتے ہیں؟
ایسا نہیں کہ پاکستان کشمیر کو بھول گیا، کشمیر ہمیں یاد رہا لیکن خاص دنوں کے لیے، کشمیر ہماری پالیسی ہے مگر ایک منٹ کی خاموشی کی حد تک۔ ایسا کیسے ؟ آپ خود ہی جانچ لیجیے۔
حکومت پاکستان کی پارلیمانی کشمیر کمیٹی نے کشمیر کاز کے لیے اب تک کتنی بار بیٹھک لگا کر چائے پی، بسکٹ نمکو کھایا آپ کو اس کی تفصیلات تو پارلیمنٹ کے فنانس ریکارڈ سے مل جائیں گی لیکن بمشکل ہی ڈھونڈ پائیں گے کہ اس کمیٹی نے مسئلہ کشمیر کے حل کی خاطر کون سے ٹھوس اقدامات کیے۔
پاکستان میں پارلیمانی سیاست کی کوریج کرنے والے رپورٹرز خوب جانتے ہیں کہ کشمیر کمیٹی، کشمیر سے متعلق قراردادیں اور کشمیر کمیٹی کی چئیرمین شپ یہ غیر اہم موضوعات ہیں، جنہیں خود حکومتیں بھی ترجیح نہیں سمجھتیں۔
وزارت خارجہ کی سطح پر پاکستانی حکومتوں کی معاملہ فہمی اتنی ہے کہ ن لیگ دور حکومت میں یہ وزارت ایک کل وقتی وزیر سے محروم رہی، کشمیر پر کوئی عالمی پریشر تو خاک بننا تھا یہ حکومت اندرونی خلفشار سے الجھی رہی۔
آج کی طرح پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بھی وزارت خارجہ کی پگڑی شاہ محمود قریشی کے سر پہ تھی، یہ تب بھی کشمیر معاملے میں اتنے ہی متحرک تھے جتنا کے آج ہیں یعنی بے حد مصروف لیکن بے سمت۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق مستقل مندوب ملیحہ لودھی جب تک اس عہدے پر رہیں کہیں نا کہیں کشمیر خبروں میں آہی جاتا تھا، ان کے جانے کے بعد یہ فرنٹ بھی غیر فعال سا لگتا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ شروع ہو کر ختم بھی ہو گئی، ہم اس جنگ کے نام پر لٹ گئے، کٹ گئے لیکن کشمیر کے معاملے پر ہم کوئی نتیجہ خیز عالمی دباؤ نہیں بنا سکے۔ ہم اپنی اسلامی جمہوری شناخت کو بھی اسلامی ممالک کی لابی بنانے میں کام نہ لاسکے۔
’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب پورا ہو گيا‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ اس دوران کئی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ بھارتی سکیورٹی اہلکار اور کشمیری عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dar Yasin
وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا
ایک سال قبل بھارتی حکومت نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ کشمیریوں کے پاس یہ خصوصی حیثیت صدراتی حکم کے تحت گزشتہ ستر سالوں سے تھی۔ بھارتی حکومت نے اس فیصلے کے فوری بعد کشمیری رہنماؤں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا ور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی کی گئیں۔
تصویر: AFP/R. Bakshi
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع
لاک ڈاؤن کے فوری بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر شدید کریک ڈاؤن کیا گیا۔ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ مودی مخالف جذبات رکھنے والے سرگرم کارکنوں اور شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو واپس بحال کیا جائے۔
تصویر: Imago Images/S. Majeed
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
اگست 2019ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھارت کے زیر انتطام کشمیر پر ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ بھارت کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سےشہریوں پر مبینہ تشدد
لاک ڈاؤن کے پہلے ماہ ہی برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ بھارتی افواج کی جانب سے سویلین شہریوں پر تشدد کیا گیا۔ اس رپورٹ میں بی بی سی نے ان مقامی افراد سے گفتگو کی جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید تشدد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا
ستمبر دو ہزار انیس میں پاکستان، برطانیہ، بھارت اور خود بھارتی زیر انتطام کشمیر میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ لاک ڈاؤن کے باعث کشمیر کی معیشت بد حالی کا شکار ہونا شروع ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت
گزشتہ برس اکتوبر میں بھارتی حکومت نے نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت دی۔ اسی ماہ پولیس نے جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن اور بیٹی سمیت کئی خواتین کو احتجاجی مظاہرہ کرنے پر گرفتار کر لیا۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے
اکتیس اکتوبر کو سرکاری طور پر بھارتی وفاقی حکومت کے احکامات لاگو ہوئے اور جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے، ایک جموں و کشمیر اور دوسرا لداخ، جن کے انتظامات اب براہ راست وفاقی حکومت کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس حوالے سے بھارتی وزير داخلہ امت شاہ نے اس پيش رفت پر کہا، ’’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب آج پورا ہو گيا ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustfa
مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان
نومبر میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کی طرف سے اگست 2019ء میں جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد صرف کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Mattoo
انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا
نومبر میں ہی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع لداخ کے خطہ کرگل میں ایک سو پینتالیس روز کے بعد انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا۔ تاہم وادی کمشیر میں اس پر پابندیاں عائد رہیں۔ دسمبر میں اعلان کیا گیا کہ کشمیر میں موبائل فون کی ٹیکسٹ میسیجنگ سروس بحال کی جائے گی تاہم یہ بحالی بہت محدود تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/X. Galiana
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
جنوری دو ہزار بیس میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کی صورتحال پر اجلاس بلایا۔ اس موقع پر چین کی جانب سے کہا گیا کہ کشمیر کی قمست کا فیصلہ وہاں کی عوام کو کرنا چاہیے اور چین کشمیریوں کے حق رائے دہی کی حمایت کرتا ہے۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Press/F. Khan
پاکستانی وزیر اعظم کا خطاب
رواں سال فروری میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کو چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے پانچ فروری کو مظفرآباد میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا ہی ایک دن کشمیر کی آزادی کا سبب بنے گا۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری
بھارت کی جانب سے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری ہے۔ فروری میں ہی امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کی صورتحال کا حل نکالنے کے لیے ثالثی کے کردار کی پیش کش کی گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Hussain
انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی
اس سال مارچ میں انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی کی جاتی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کی انتہائی سست رفتار کے ساتھ۔
تصویر: Reuters/A.
نئے قوانین کا نفاظ
اپریل میں بھارتی حکومت کی جانب سے نئے قوانین کا نفاظ کیا جاتا ہے۔ نئے قانون کے تحت کوئی بھی شخص جو جموں اور کشمیر میں پندرہ سال تک رہائش پذیر ہوگا وہ کشمیری ڈومیسائل کا اہل بن جائے گا۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت
مئی میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور کشمیری جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں پانچ بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency/J. Dar
’بھارت جمہوریت کے امتحان میں ہار گیا’
اسی سال جولائی میں 'فورم فار ہیومن رائٹس ان جے اینڈ کے‘ نامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ کشمیر کئی لحاظ سے بھارتی جمہوریت کے لیے ایک امتحان رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت اس امتحان میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت
جولائی میں ہی ایک چھوٹے بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت پر کشمیر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس بچے کے نانا سکیورٹی افواج اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ کا مبینہ طور پر نشانہ بن گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو ہی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’یوم استحصال‘
پاکستان کی جانب سے پانچ اگست کو ’یوم استحصال‘ کہا جا رہا ہے۔ آج پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’ کشمیر کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے۔‘‘ وزیر اعظم پاکستان نے ملک کا ایک نیا ’سیاسی نقشہ‘ منظر عام پر لایا ہے جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
19 تصاویر1 | 19
راحیل شریف کا سعودی عرب میں خدمات دینا بھی کشمیر کے مسلمانوں کے لیے بے ثمر رہا۔ چین کے سامنے چوں چرا کی فی الحال گنجائش نہیں ورنہ چین کا کندھا ہی کسی کام آجاتا۔
پاکستانی عوام کشمیری بہن بھائیوں کا دکھ جانتے ہیں، یہ خود کو کشمیر کے لوگوں سے جذباتی اور مذہبی طور پر منسلک سمجھتے ہیں اور اسی ایک کمزوری کے نام پر پچھلے تہتر برسوں سے پاکستانی عوام کو کشمیر کی آزادی کا نعرہ بیچا جارہا ہے، حریت کشمیر کے نغمے بیچے گئے، جدوجہد آزادی کشمیر کے موضوع پر فلمیں ڈرامے بیچے گئے۔
کشمیر پاکستان کی ترجیح کن محاذوں پہ رہا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں۔ پاکستان پر الزام لگے کہ وہ لائن آف کنٹرول کے اُس پار کشمیر میں مسلح علیحدگی پسند تحریک کا معاون رہا، ہم نے حریت پسندی کے نام پر یہ تمغہ اپنے سینے پر سجایا، یہ مسئلہ دونوں ممالک کے بیچ جنگوں کی وجہ بنا یہاں تک کہ یہ ایک روش ہی بن گئی کہ بھارت الزام لگاتا ہے پاکستان تردید کردیتا ہے، نجانے کتنی بار یہ سب ہوا، کتنی بار پھر ہوگا لیکن کشمیر کو حل پھر بھی نہ ملا، کوئی منزل نظر آئی نہ راستہ۔
کشمیر میں کیا کچھ بدل گیا؟
08:00
ہم نے پاکستان کے نئے نقشے میں بھارتی زیر انتظام کشمیر کو اپنا حصہ ظاہر کرکے بھارت کو ایک کڑا پیغام تو دے دیا مگر اللہ والیو! استصواب رائے والے مطالبے کا کیا ہوگا، کشمیری بھائی بہنوں کو کچھ تو بتائیں ان سے کوئی تو پوچھے. کوئی تو پوچھے کہ تہتر سال کی اس کشمکش کے بعد اب وہ چاہتے کیا ہیں.
یہ کہتے ہوئے اچھا نہیں لگتا لیکن سچ یہی ہے کہ کشمیریوں سے وفا ہم نے بھی نہیں نبھائی، کشمیر کے لیے ہماری کھوکھلی جدوجہد اس شک میں ڈال دیتی ہے کہ شاید یہ مسئلہ حل کرانا مقصود ہی نہیں، پاکستان بھارت کے اس ہاون دستے میں جو کوئی کچلا جارہا ہے تو وہ کشمیری ہیں.
عام پاکستانی کشمیر کے نام پر ہر چورن، ہر منجن خریدتے رہے ہیں، آگے بھی ہاتھوں ہاتھ لیں گے، لیکن بس اتنا بتا دیجیے کہ آج تک تو جو ہوا سو ہوا، آپ کی اب کشمیر پالیسی کیا ہے۔ کیا کہا؟ 'ایک منٹ کی خاموشی‘ ؟