ترکی کے مغربی ساحلی پانیوں میں مہاجرین کی ایک کشتی ڈوبنے کے نتیجے میں ایک بچے سمیت دو مہاجرین ہلاک ہو گئے ہیں۔ ترک حکام کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں سوار دیگر تقریبا دس لاپتہ افراد کی تلاش جاری ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ترک حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ مہاجرین کی ایک کشتی ڈوبنے کی وجہ سے دو افراد مارے گئے ہیں۔ ہلاک شدگان میں ایک بچہ بھی شامل ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس کشتی میں سوار دیگر دس افراد لاپتہ ہیں، جن کی تلاش کا عمل جاری ہے۔ یہ حادثہ پیر کے دن ترک صوبے ازمیر کے مغربی ساحلوں میں پیش آیا۔
ساحلی محافظوں کے مطابق اس حادثے کے بعد دو مہاجرین تیرتے ہوئے ساحل پر پہنچ گئے جب کہ ایک کو امدادی کارکنوں نے بچا لیا۔ ابتدائی بیان کے مطابق اس کشتی میں مجموعی طور پر پندرہ افراد سوار تھے، جن میں چودہ افغان جبکہ ایک ایرانی تھا۔ مقامی میڈیا رپورٹوں کے مطابق یہ مہاجرین غالبا یورپ جانے کی کوشش میں تھے۔
دوسری طرف ترک حکام نے ایک کارروائی کرتے ہوئے 73 غیر قانونی تارکین وطن کو حراست میں لے لیا۔ حکام کے مطابق ان میں پاکستانی، افغان اور ایرانی عراقی باشندے شامل ہیں۔
سرکاری نیوز رساں ادارے انادلو کے مطابق یہ کارروائی قرقلرایلی صوبے میں کی گئی۔ بلغاریہ کی سرحد سے متصل اس صوبے کے حکام نے بتایا ہے کہ یہ لوگ یورپ داخل ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ بالخصوص شام اور عراق سے ہجرت کرنے والے افراد ترکی کے راستے ہی یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت بھی ترکی میں شامی مہاجرین کی تعداد تین ملین جبکہ عراقی مہاجرین کی تعداد تین لاکھ سے زائد ہے۔
شام میں سن دو ہزار گیارہ سے جاری تنازعے کے سبب کم ازکم ساڑھے تین لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ دیگر لاکھوں مہاجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔
ترکی اور یورپی یونین نے سن دو ہزار سولہ میں ایک ڈیل طے کی تھی، جس کے نتیجے میں ترک حکام مالی امداد کے عوض ان مہاجرین کو یورپ جانے سے روک رہا ہے۔ اسی ڈیل کے نتیجے میں ترکی سے یونان جانے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔
تاہم پھر بھی کئی ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں، جن میں مہاجرین غیر قانونی طور پر بحیرہ ایجئین عبور کر کے یونان جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ایسی کوششوں میں کشتیوں کو پیش آنے والے حادثات کی وجہ سے رواں برس اب تک درجنوں مہاجرین لقمہ اجل بھی بن چکے ہیں۔
ع ب / ش ح / خبر رساں ادارے
جرمنی: سات ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ملک بدری طے
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی ڈیٹا بیس کے مطابق ملک کی سولہ وفاقی ریاستوں سے سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو لازمی ملک بدر کیا جانا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس صوبے سے کتنے پاکستانی اس فہرست میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
باڈن ورٹمبرگ
وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
باویریا
جرمن صوبے باویریا میں ایسے غیر ملکی شہریوں کی تعداد تئیس ہزار سات سو بنتی ہے، جنہیں جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں 1280 پاکستانی بھی شامل ہیں، جو مجموعی تعداد کا 5.4 فیصد ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Anspach
برلن
وفاقی جرمن دارالحکومت کو شہری ریاست کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ برلن سے قریب سترہ ہزار افراد کو لازماﹰ ملک بدر کیا جانا ہے جن میں تین سو سے زائد پاکستانی شہری شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
برانڈنبرگ
اس جرمن صوبے میں ایسے غیرملکیوں کی تعداد قریب سات ہزار بنتی ہے، جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے سات فیصد (471) کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Oliver Mehlis
ہیسے
وفاقی صوبے ہیسے سے بھی قریب گیارہ ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا ہے جن میں سے 1178 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
جرمنی میں سب سے زیادہ آبادی والے اس صوبے سے بھی 71 ہزار غیر ملکیوں کو لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں افغان شہریوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے۔ پاکستانی شہری اس حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں شامل نہیں، لیکن ان کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد بنتی ہے۔
تصویر: imago/epa/S. Backhaus
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
رائن لینڈ پلاٹینیٹ سے ساڑھے آٹھ ہزار غیر ملکی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں پانچ سو سے زائد پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
سیکسنی
جرمن صوبے سیکسنی میں ساڑھے گیارہ ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جن کی ملک بدری طے ہے۔ ان میں سے 954 پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دیگر صوبے
مجموعی طور پر سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی ملک بدری طے ہے۔ دیگر آٹھ جرمن وفاقی ریاستوں میں پاکستانیوں کی تعداد پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں، اس لیے ان کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں۔