1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک نقطے نے محرم سے مجرم کر دیا، ایک ارب ڈالر بچ گئے

امجد علی10 مارچ 2016

بنگلہ دیش کے بینکاری نظام میں نقب لگانے والے ہیکرز 81 ملین ڈالر تو اپنے اکاؤنٹس میں منتقل کروانے میں کامیاب ہو گئے لیکن اگر ٹائپنگ میں ایک عام سی غلطی نہ کرتے تو وہ تقریباً ایک ارب ڈالر کی رقم لوٹنے میں کامیاب ہو جاتے۔

Symbolbild Tastatur Internet
تصویر: picture-alliance/dpa/Hildenbrand

نیوز ایجنسی روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق فروری کے اوائل میں پیش آنے والا یہ واقعہ بینکوں میں نقب زنی کی بڑی وارداتوں میں سے ایک ہے۔ تاحال ان ہیکرز کا سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے۔

روئٹرز نے بنگلہ دیش کے دو سینیئر بینک حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان نامعلوم ہیکرز نے گزشتہ مہینے بنگلہ دیش بینک کے کمپیوٹر سسٹمز تک رسائی حاصل کر لی اور وہ کوائف چُرا لیے، جو بین الاقوامی سطح پر رقوم کی منتقلی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

نیویارک میں فیڈرل ریزرو بینک میں بنگلہ دیش بینک کے اکاؤنٹس میں اربوں ڈالر پڑے ہوئے ہیں، جنہیں مختلف ممالک میں ادائیگیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے استعمال ہونے والا ڈیٹا ہیکرز کی تحویل میں آیا، اُنہوں نے امریکی فیڈرل ریزرو بینک کے نام پَے در پَے ای میلز روانہ کرنا شروع کر دیں، جن میں اس بینک کو فلپائن اور سری لنکا میں مختلف اکاؤنٹس میں کئی ملین ڈالر کی رقوم منتقل کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ مجموعی طور پر ایسی کوئی تین درجن ای میلز بھیجی گئیں۔

فیڈرل ریزرو بینک نے چار ای میلز پر مطلوبہ کارروائی کرتے ہوئے اکیاسی ملین ڈالر کی رقم فلپائن کے اکاؤنٹس میں منتقل کر دی لیکن بیس ملین ڈالر کی رقم سری لنکا کی ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم کے نام منتقل کرنے کی پانچویں ای میل پر کارروائی راستے ہی میں روک دی گئی کیونکہ ہیکرز نے اس این جی او کے نام کے ہجے کرنے میں معمولی سی غلطی کر دی تھی۔

روئٹرز کا کہنا ہے کہ سری لنکا کی اس تنظیم کا مکمل نام تو معلوم نہیں ہو سکا ہے تاہم ایک متعلقہ افسر کے مطابق ہیکرز نے فاؤنڈیشن (Foundation) کی جگہ Fandation لکھ دیا تھا، جس پر رقم کی منتقلی میں شریک جرمن بینک ’ڈوئچے بینک‘ نے بنگلہ دیش کے مرکزی بینک سے وضاحت طلب کر لی اور یوں اس منتقلی کو روک دیا گیا۔ روئٹرز کے مطابق ڈوئچے بینک نے رابطہ کرنے پر اس واقعے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

بتایا گیا ہے کہ فیڈرل ریزرو بینک بھی شک و شبے میں مبتلا ہو گیا تھا کہ ایک تو ایک ساتھ اتنی غیر معمولی طور پر بھاری رقوم منتقل کیے جانے کی درخواستیں کی جا رہی ہیں اور وہ بھی پرائیویٹ کمپنیوں کے نام منتقلی کی ہیں، نہ کہ مختلف بینکوں کے نام، جیسا کہ عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے۔

پیسہ تو شاید واپس مل ہی جائے گا لیکن اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ کبھی ہیکرز کا بھی کوئی سراغ مل سکے گاتصویر: picture-alliance/dpa/S.Mortagne

بتایا گیا ہے کہ اگر وقت پر پتہ نہ چلتا تو ہیکرز 850 ملین اور 870 ملین ڈالر کے درمیان رقم مختلف اکاؤنٹس میں منتقل کروانے میں کامیاب ہو جاتے۔ دریں اثناء بنگلہ دیش بینک چرائی گئی رقوم میں سے کچھ واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے جبکہ باقی کی رقوم کے لیے فلپائن میں متعلقہ محکموں کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ساری رقوم واپس حاصل کرنے میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پیسہ تو شاید واپس مل ہی جائے گا لیکن اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ کبھی ہیکرز کا بھی کوئی سراغ مل سکے گا۔

گزشتہ برس روسی کمپیوٹر سکیورٹی فرم کاسپرسکی لیب نے بتایا تھا کہ سائبر جرائم میں مہارت رکھنے والا ایک کثیر القومی گروہ دو برسوں کے دوران دنیا بھر کے ایک سو مالیاتی اداروں سے ایک ارب ڈالر کی رقم چرانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں