مشرقی غوطہ شدید بمباری سے دوچار ہے اور ایسے میں وہاں پاکستانی شہری محمد فضل اکرم ان افراد میں شامل تھے، جو سب سے پہلے اس علاقے سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
اشتہار
محمد فضل اکرم مشرقی غوطہ کی یادیں بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے وہاں ایک ہسپتال میں اعضاء کھو چکی بچی کو دیکھا۔
شامی فورسز نے ایک طویل عرصے سے اس علاقے کا محاصرہ کر رکھا ہے اور وہاں بڑی تعداد میں لوگ خوراک اور پینے کے پانی کی شدید قلت کے ساتھ ساتھ ادویات اور دیگر ضروری اشیاء کے متلاشی ہیں، جب کہ آسمان سے آگ برس رہی ہے۔ اکرم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ’’ہم یہ تک نہیں جان پا رہے تھے کہ ہمیں کون قتل کر رہا ہے اور کون قاتل نہیں ہے۔‘‘ اکرم، جو اب پاکستان پہنچ چکے ہیں، نے کہا، ’’ہمیں صرف ایک چیز کا علم تھا اور وہ یہ کہ ہمارا شہر برباد ہو رہا ہے۔‘‘
’شام کی وہ دوزخ، جس کا ایندھن بچے ہیں‘
شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج، باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں چار لاکھ سے زائد شہری محصور ہیں اور تقریبا ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
مشرقی غوطہ میں طبی امداد فراہم کرنے والی تنظیم سیرئین سول ڈیفنس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اسد کی حامی فورسز نے بمباری کے دوران کلورین گیس کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور متاثرہ افراد کو سانس لینے مین دشواری کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
آزاد ذرائع سے کلورین گیس کے استعمال کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اس کی حمایت یافتہ فورسز یہ زیریلی گیس استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر قائم اس ’جہنم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘۔
تصویر: picture alliance/AA/Q. Nour
زیر محاصرہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں شدید فضائی حملوں کے بعد وہاں پھنسے عام شہری امداد اور طبی مدد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
گزشتہ ایک ہفتے میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے مشرقی غوطہ پر کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سلامتی کونسل نے شام میں 30 روزہ فائربندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فائربندی پر عمل درآمد ’بلاتاخیر‘ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود روسی طیاروں نے ہفتے کے ہی روز مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آبزرویٹری نے مزید بتایا کہ ہلاک شدگان میں 127 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
شامی خانہ جنگی سے متعلق صلاح و مشورے کے لیے آج پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ وزرائے خارجہ یہ طے کریں گے کہ کس طرح مشرقی غوطہ میں ظلم و تشدد کے شکار شہریوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/B.Khabieh
سلامتی کونسل کی قرارداد میں تیس روزہ فائر بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران امدادی سامان کی ترسیل اور شدید زخمیوں کو متاثرہ علاقوں سے باہر نکالا جائے گا۔ اس قرارداد میں شامی باغیوں کے گڑھ مشرقی غوطہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
مشرقی غوطہ دو مسلم گروپوں میں منقسم ہے اور وہاں شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ بھی سرگرم ہے۔ روس نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی تھی تاکہ وہاں موجود باغی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل جائیں، بالکل اسی طرح جیسا 2016ء میں حلب میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم غوطہ میں تمام باغی تنظیموں نے اس روسی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Al-Bushy
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان رہنماؤں نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فائربندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al-Bushy
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران اس علاقے میں کم از کم پانچ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ ان حملوں کے بعد کئی ہسپتال معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل نہ رہے۔
تصویر: picture alliance/AA/K. Akasha
ان حملوں کے حوالے سے شامی حکومتی افواج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن اسد حکومت اکثر یہی کہتی ہے کہ سرکاری افواج کی طرف سے صرف باغیوں اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/Syrian Civil Defense White Helmets
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس نے شام میں ان تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
13 تصاویر1 | 13
محمد فضل اکرم سن 1974 میں مشرقی غوطہ منتقل ہوئے تھے۔ ان کی دو بیویاں ہیں، جن میں سے ایک کا تعلق غوطہ ہی سے ہے جب کہ دوسری ان کی پاکستانی کزن ہیں۔ اکرم کے مطابق پھر شہر میں بیرونی عسکریت پسند آ گئے، اس کے دو بیٹوں کو عسکریت پسند گروہ میں بھرتی کر لیا گیا جب کہ تیسرا بیٹا سن 2013ء میں تشدد کی نذر ہو گیا۔
اکرم نے بتایا کہ گلی کوچے میں پھیل جانے والے پرتشدد واقعات کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ شام ڈھلنے پر اپنے بیٹے کی واپسی کا انتظام کر کرتے رہے، مگر اسے ایک ایمبولنس گھر لائی اور وہ بھی مردہ حالت میں۔ اپنی شامی بیوی ربع جرد کا نیلا پاسپورٹ لہراتے ہوئے اکرم نے بتایا، ’’وہ یہ دکھ برداشت نہ کر سکی اور اسے دل کا دورہ پڑ گیا۔‘‘
سن 2015ء میں اکرم نے اپنے خاندان کے ساتھ مشرقی غوطہ سے نکلنے کی کوشش کی تھی، ’’مسلح گروپوں نے پہلے تو ہم پر گولی چلائی، پھر حکومتی فورسز نے۔ ہم شہر سے نکل نہ پائے۔‘‘
اس زیرمحاصر شہر کے باسی نے بتایا کہ اس علاقے کی تمام آبادی رفتہ رفتہ مٹتی چلی گئی، کچھ علاقے سے نکل گئے کچھ مارے گئے۔ اکرم نے بتایا کہ اس نے پورے علاقے میں ہر طرف بری طرح زخمی لوگ دیکھے اور کئی مقامات پر ملبے تلے انسانی لاشیں گلتی سڑتی نظر آئیں۔ اکرم کے مطابق وہ ہسپتال میں بازوؤں اور ٹانگوں کے بغیر پڑی اس بچی کی یاد اپنے دماغ سے محو نہیں کر پایا، ’’میں نے خدا سے دعا کی تھی کہ وہ کسی کو یہ مناظر کبھی نہ دکھائے۔‘‘