ایک تحقیقی جائزے کے مطابق جرمنی میں ایک چوتھائی شہریوں کی جیب مہینے کے آخر میں خالی ہو جاتی ہے۔ اٹھائیس فیصد عوام ایک مہینے میں پچاس یورو سے زیادہ نہیں بچا پاتے جس کی وجہ سے وہ بڑھاپے میں غربت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
اشتہار
جرمن عوام کی ایک بڑی تعداد بڑھاپے کے لیے بچت نہیں کر پاتی۔ 'یو گوو‘ اور 'سوئس لائف‘ کے تیار کردہ ایک تازہ تحقیقی جائزے کے مطابق ایک چوتھائی جرمن شہریوں کی جیب اختتام ماہ پر بالکل خالی رہ جاتی ہے۔ ہفتے کے روز جاری کردہ اس سروے کے نتائج میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اٹھائیس فیصد جرمن شہری ایک مہینے میں زیادہ سے زیادہ پچاس یورو ہی بچا پاتے ہیں۔
رواں برس جون میں کیے گئے اس جائزے میں دو ہزار سے زائد جرمن شہریوں سے ان کے اخراجات کے بارے میں سوالات پوچھے گئے۔ جائزے کے مطابق 36 فیصد جرمن شہری ریٹائر ہونے کے بعد غربت کا شکار ہو جانے کے خوف میں مبتلا ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ بڑھاپے میں وہ اپنا خرچہ نہیں اٹھا پائیں گے۔
بچت نہ کر سکنے کی کئی وجوہات بھی بتائی گئی ہیں۔ جرمن شہریوں کی اکثریت کا سب سے زیادہ خرچہ رہائش پر اٹھتا ہے اور قریب ہر تیسرا شہری اپنی ماہانہ آمدن کا 30 فیصد کرائے اور رہائش پر اٹھنے والے دیگر اضافی اخراجات پر صرف کر دیتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ خرچہ اشیائے خورد و نوش پر اٹھتا ہے جو اوسط آمدنی کا 19 فیصد ہے جب کہ ہر مہینے نو فیصد آمدن ٹرانسپورٹ پر خرچ ہو جاتی ہے۔
زندگی بھر کام پھر بھی بڑھاپا غربت میں
جرمن حکومت کم آمدنی والے ایسے ہی شہریوں کی پنشن بڑھانے کے ایک منصوبے پر کام کر رہی ہے اور اس ضمن میں آج دس نومبر بروز اتوار تک قانونی مسودہ تیار کر لیا جائے گا۔
ڈی ڈبلیو نے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے والے ایسے ہی ایک ریٹائرڈ شہری سے گفتگو کی اور ان سے پوچھا کہ آیا مجوزہ حکومتی منصوبوں سے ان کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے۔
بون کے رہائشی 77 سالہ ہانس روڈولف اپنی بیوی کے ہمراہ ایک کمرے کے فلیٹ میں رہتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ریٹائر ہونے سے قبل انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن کسی کیفے میں بیٹھ کر کافی پینا بھی ایک 'لگژری‘ عمل بن جائے گا۔
جرمن برآمدات کے سُپر سٹار شعبے
آج کل جرمنی ایک ہزار ارب یورو سے زیادہ مالیت کی مصنوعات دنیا کو برآمد کر رہا ہے۔ اس پکچر گیلری میں ہم آپ کو جرمنی کے دَس کامیاب ترین برآمدی شعبوں سے متعارف کروا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
ہنگامہ خیز ... لیکن ٹاپ ٹین کی منزل سے ابھی دُور
ایک زبردست منظر: ایک زرعی فارم کے بالکل قریب سے گزرتا ایک کئی منزلہ بحری جہاز، جو کل کلاں کئی ہزار سیاحوں کو لے کر دُنیا کے وسیع و عریض سمندروں پر محوِ سفر ہو گا۔ جرمن شہر پاپن برگ میں تیار کردہ اس جہاز کو دریائے ایمز کے راستے بحیرہٴ شمالی میں لے جایا جا رہا ہے۔ صوبے لوئر سیکسنی کے اس بڑے کاروبار کی جرمن برآمدات کی ٹاپ ٹین کی فہرست میں شمولیت کی منزل لیکن ابھی کافی دُور ہے۔
تصویر: AP
غیر مقبول برآمدی مصنوعات
رائفلز ہوں، آبدوزیں یا پھر لیپرڈ نامی ٹینک، دُنیا بھر میں ’میڈ اِن جرمنی‘ ہتھیاروں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ امن پسند جرمن معاشرے کے لیے یہ کامیابی کسی حد تک تکلیف دہ بھی ہے۔ ویسے یہ کامیابی اتنی بڑی بھی نہیں کیونکہ جرمنی کے اصل برآمدی سٹار (ٹاپ ٹین فہرست میں نمبر نو اور دَس) بحری جہاز اور ٹینک نہیں بلکہ انسانوں اور جانوروں کی اَشیائے خوراک یا پھر ربڑ اور پلاسٹک سے بنی مصنوعات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
دھاتیں
جرمن محکمہٴ شماریات نے ابھی ابھی اپنے جو سالانہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں، اُن میں گزشتہ سال کی سُپر سٹار جرمن برآمدی مصنوعات میں ساتویں نمبر پر ’دھاتیں‘ ہیں مثلاً المونیم، جس کا ایک استعمال یہ بھی ہے کہ اس کی مدد سے چاکلیٹ کو تازہ رکھا جاتا ہے۔ 2015ء میں جرمنی نے تقریباً پچاس ارب یورو مالیت کی دھاتیں برآمد کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Junos
دیگر قسم کی گاڑیاں
جرمنی میں کاروں کے ساتھ ساتھ اور کئی قسم کی گاڑیاں بھی تیار کی جاتی ہیں مثلاً وہ گاڑیاں، جو کوڑا اُٹھانے کے کام آتی ہیں لیکن اسی صف میں ٹرکوں، بسوں اور اُن تمام گاڑیوں کا بھی شمار ہوتا ہے، جو کاریں نہیں ہیں لیکن جن کے چار پہیے ہوتے ہیں۔ 2015ء میں جرمنی کی بارہ سو ارب یورو کی مجموعی برآمدات میں سے ان مخصوص قسم کی گاڑیوں کا حصہ ستاون ارب یورو رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Wolf
ادویات
جرمنی کی دوا ساز صنعت کی ساکھ پوری دُنیا میں بہت اچھی ہے۔ آج بھی اس صنعت کے لیے وہ بہت سی ایجادات سُود مند ثابت ہو رہی ہیں، جو تقریباً ایک سو سال پہلے ہوئی تھیں۔ اگرچہ بہت سی ادویات کے پیٹنٹ حقوق کی مدت ختم ہو چکی ہے تاہم جرمن ادارے اُنہیں بدستور بھاری مقدار میں تیار کر رہے ہیں۔ ان ادویات کی مَد میں جرمنی کو سالانہ تقریباً ستّر ارب یورو کی آمدنی ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Endig
برقی مصنوعات
بجلی کام کی چیز بھی ہے لیکن خطرناک بھی ہے۔ کم وولٹیج کے ساتھ رابطے میں آنا پریشانی کا باعث بنتا ہے لیکن زیادہ وولٹیج والی تاروں سے چھُو جانا موت کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ برقی مصنوعات بنانا مہارت کا کام ہے اور اس حوالے سے جرمن اداروں کی شہرت بہت اچھی ہے۔ 2015ء میں برقی مصنوعات تیار کرنے والے جرمن اداروں کا مجموعی برآمدات میں حصہ چھ فیصد رہا۔
تصویر: picture alliance/J.W.Alker
ڈیٹا پروسیسنگ آلات اور آپٹک مصنوعات
تقریباً ایک سو ارب یورو کے ساتھ جرمن کے اس برآمدی شعبے کا مجموعی برآمدات میں حصہ آٹھ فیصد سے زیادہ رہا۔ بہت سے جرمن ادارے گزشتہ کئی نسلوں کے تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی اعلیٰ معیار کی حامل تکنیکی اور سائنسی مصنوعات تیار کر رہے ہیں، مثلاً ژَین آپٹک لمیٹڈ نامی کمپنی کا تیار کردہ یہ لیزر ڈائی اوڈ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Kasper
کیمیائی مصنوعات
جرمنی کے بڑے کیمیائی ادارے ادویات ہی نہیں بنا رہے بلکہ وہ مختلف طرح سے استعمال ہونے والی گیسیں اور مائعات بھی تیار کرتے ہیں۔ یہ شعبہ سالانہ ایک سو ارب یورو سے زیادہ کے کیمیکلز برآمد کرتا ہے۔ بائر اور بی اے ایس ایف جیسے اداروں کا جرمن برآمدات میں حصہ تقریباً دَس فیصد بنتا ہے اور جرمنی کی برآمدات کی ٹاپ ٹین کی فہرست میں اس شعبے کا نمبر تیسرا ہے۔
تصویر: Bayer AG
مشینیں
جرمنی: انجینئروں کی سرزمین۔ یہ بات ویسے تو کہنے کو کہہ دی جاتی ہے لیکن اس میں کچھ حقیقت بھی ہے۔ جرمنی کی برآمدات میں مشینیں دوسرے نمبر پر ہیں۔ 2015ء میں جرمنی نے مجموعی طور پر 169 ارب یورو کی مشینیں برآمد کیں۔ اس شعبے کی کامیابی کا انحصار عالمی معاشی حالات پر ہوتا ہے۔ عالمی معیشت بحران کا شکار ہو تو جرمن مشینوں کی مانگ بھی کم ہو جاتی ہے۔
... جی ہاں، کاریں۔ جرمنی کا کوئی اور شعبہ برآمدات سے اتنا نہیں کماتا، جتنا کہ اس ملک کا موٹر گاڑیاں تیار کرنے والا شعبہ۔ جرمن محکمہٴ شماریات کےتازہ سالانہ اعداد و شمار کے مطابق فوکس ویگن، بی ایم ڈبلیو، پورشے اور ڈائملر جیسے اداروں کی بنائی ہوئی کاروں اور فاضل پُرزہ جات سے جرمنی کو 226 ارب یورو کی سالانہ آمدنی ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
10 تصاویر1 | 10
روڈولف کے مطابق انہوں نے اسکول کے فوری بعد کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ بینک ملازم اور بعد ازاں ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر مسلسل کام کرنے کے بعد عمر کی ساٹھویں دھائی میں وہ ریٹائر ہو گئے۔
تاہم ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ان کی پنشن محض 335 یورو ماہانہ بنتی ہے جو کہ خط غربت کی طے شدہ لکیر سے بھی کافی کم ہے۔ انہوں نے حکومت سے مالی معاونت کی درخواست کی تو انہیں گھر کے گھر کا نصف کرایہ (300 یورو) دیا گیا جب کہ دیگر نصف ان کی بیوی کو ملنے والی امداد سے پورا ہو جاتا ہے۔
لیکن دنوں بزرگ شہریوں کی مجموعی آمدن سے وہ بمشکل خوراک، انشورنش اور دیگر ضروری بل ہی ادا کر پاتے ہیں۔ ہانس روڈولف کا کہنا تھا، ''دماغ کی سرجری کے بعد میری بیوی بہت کم کھانا کھاتی ہے، میں بھی زیادہ نہیں کھا سکتا۔ تو یوں ہم اپنا باقی خرچہ پورا کر لیتے ہیں۔‘‘
پنشن بڑھانے کا حکومتی منصوبہ
روڈولف اکیلے نہیں بلکہ ایک جائزے کے مطابق قریب 17 فیصد ریٹائرڈ جرمن شہری کم و بیش ایسی ہی صورت حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے اخراجات کے سبب یہ خدشہ بھی ہے کہ مزید شہری ریٹائر ہونے کے بعد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔
آج اتوار کے روز اسی حوالے سے حکمران جماعتوں کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں معمر افراد کا بوجھ کم کرنے کے لیے ایک حکومتی منصوبے کو حتمی شکل دی جائے گی۔ مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں اس بات پر اتفاق کر چکی ہیں کہ 35 برس پنشن فنڈ دینے والے افراد کے لیے پنشن کی رقم کی کم از کم حد مقرر کی جائے گی۔ یہ مجوزہ منصوبہ سن 2021 سے نافذ العمل ہو گا۔
تاہم چانسلر میرکل کی جماعت سی ڈی یو اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے مابین اب بھی کچھ بنیادی نکات پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ سی ڈی یو چاہتی ہے کہ ریٹائر افراد کو امداد فراہم کرنے سے قبل ایک ٹیسٹ کے ذریعے یقینی بنایا جائے کہ وہ اضافی حکومتی معاونت کے حق دار ہیں۔ تاہم ایس پی ڈی اس تجویز کی مخالف ہے۔
ہانس روڈولف سے اس بارے میں پوچھا گیا تو وہ بھی ایسے کسی ٹیسٹ کے خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ حکومت پنشن کی ایسی کم از کم حد مقرر کرے جس کے بعد ریٹائر افراد کو حکومت سے سماجی امداد نہ مانگنا پڑے۔
ش ح / ع ا (ڈی پی اے، کرستوفارو)
کپاس سے کرنسی نوٹ تک: یورو کیسے بنایا جاتا ہے؟
ای سی بی نے پچاس یورو کے ایک نئے نوٹ کی رونمائی کی ہے۔ پرانا نوٹ سب سے زیادہ نقل کیا جانے والا نوٹ تھا۔ ڈی ڈبلیو کی اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ یورو کرنسی نوٹ کس طرح چھپتے ہیں اور انہیں کس طرح نقالوں سے بچایا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
ملائم کپاس سے ’ہارڈ کیش‘ تک
یورو کے بینک نوٹ کی تیاری میں کپاس بنیادی مواد ہوتا ہے۔ یہ روایتی کاغذ کی نسبت نوٹ کی مضبوطی میں بہتر کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کپاس سے بنا نوٹ غلطی سے لانڈری مشین میں چلا جائے تو یہ کاغذ سے بنے نوٹ کے مقابلے میں دیر پا ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: tobias kromke/Fotolia
خفیہ طریقہ کار
کپاس کی چھوٹی چھوٹی دھجیوں کو دھویا جاتا ہے، انہیں بلیچ کیا جاتا ہے اور انہیں ایک گولے کی شکل دی جاتی ہے۔ اس عمل میں جو فارمولا استعمال ہوتا ہے اسے خفیہ رکھا جاتا ہے۔ ایک مشین پھر اس گولے کو کاغذ کی لمبی پٹیوں میں تبدیل کرتی ہے۔ اس عمل تک جلد تیار ہو جانے والے نوٹوں کے سکیورٹی فیچرز، جیسا کہ واٹر مارک اور سکیورٹی تھریڈ، کو شامل کر لیا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نوٹ نقل کرنے والوں کو مشکل میں ڈالنا
یورو بینک نوٹ تیار کرنے والے اس عمل کے دوران دس ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں جو کہ نوٹ نقل کرنے والوں کے کام کو خاصا مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایک طریقہ فوئل کا اطلاق ہے، جسے جرمنی میں نجی پرنرٹز گائسیکے اور ڈیفریئنٹ نوٹ پر چسپاں کرتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نقلی نوٹ پھر بھی گردش میں
پرنٹنگ کے کئی پیچیدہ مراحل کے باوجود نقال ہزاروں کی تعداد میں نوٹ پھر بھی چھاپ لیتے ہیں۔ گزشتہ برس سن دو ہزار دو کے بعد سب سے زیادہ نقلی نوٹ پکڑے گئے تھے۔ یورپی سینٹرل بینک کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں نو لاکھ جعلی یورو نوٹ گردش کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
ایک فن کار (جس کا فن آپ کی جیب میں ہوتا ہے)
رائن ہولڈ گیرسٹیٹر یورو بینک نوٹوں کو ڈیزائن کرنے کے ذمے دار ہیں۔ جرمنی کی سابقہ کرنسی ڈوئچے مارک کے ڈیزائن کے دل دادہ اس فن کار کے کام سے واقف ہیں۔ نوٹ کی قدر کے حساب سے اس پر یورپی تاریخ کا ایک منظر پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ہر نوٹ دوسرے سے مختلف
ہر نوٹ پر ایک خاص نمبر چھاپا جاتا ہے۔ یہ نمبر عکاسی کرتا ہے کہ کن درجن بھر ’ہائی سکیورٹی‘ پرنٹرز کے ہاں اس نوٹ کو چھاپا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ نوٹ یورو زون کے ممالک کو ایک خاص تعداد میں روانہ کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
پانح سو یورو کے نوٹ کی قیمت
ایک بینک نوٹ پر سات سے سولہ سینٹ تک لاگت آتی ہے۔ چوں کہ زیادہ قدر کے نوٹ سائز میں بڑے ہوتے ہیں، اس لیے اس حساب سے ان پر لاگت زیادہ آتی ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
آنے والے نئے نوٹ
سن دو ہزار تیرہ میں پانچ یورو کے نئے نوٹ سب سے زیادہ محفوظ قرار پائے تھے۔ اس کے بعد سن دو ہزار پندرہ میں دس یورو کے نئے نوٹوں کا اجراء کیا گیا۔ پچاس یورو کے نئے نوٹ اگلے برس گردش میں آ جائیں گے اور سو اور دو یورو کے نوٹ سن دو ہزار اٹھارہ تک۔ پانچ سو یورو کے نئے نوٹوں کو سن دو ہزار انیس تک مارکیٹ میں لایا جا سکتا ہے۔