ایرانی ریال کی قدر میں گزشتہ روز امریکی ڈالر کے مقابلے میں شدید کمی نوٹ کی گئی۔ امریکی پابندیوں اور کورونا کی وبا کے علاوہ عالمی جوہری توانائی ایجنسی کی تنقید نے بھی ایرانی معیشت کو شدید متاثر کیا ہے۔
اشتہار
جمعے کے روز بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے ایران سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس کے معائنہ کاروں کو دو مشتبہ جوہری تنصیبات کے معائنے کے اجازت دے۔ فارن کرنسی ایکسچیج پر نگاہ رکھنے والی ویب سائٹ بونباسٹ ڈاٹ کام کے مطابق اس تازہ پیش رفت کے بعد ہفتے کے روز اوپن مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں ایرانی ریال کی قدر ایک لاکھ اٹھاسی ہزار دو سو سے کم ہو کر ایک لاکھ ترانوے ہزار تین سو پر جا پہنچی۔ دوسری جانب اقتصادی خبریں دینے والے روزنامے دنیائے اقتصاد نے ڈالر کے مقابلے میں ایرانی ریال کی قدر ایک لاکھ نوے ہزار آٹھ سو بتائی ہے۔
جمعے کو بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے 35 رکنی بورڈ آف گورنرز نے کہا تھا کہ ایران دو مشتبہ جوہری تنصیبات تک بین الاقوامی معائنہ کاروں کو جانے سے روک رہا ہے۔ اس بیان سے تہران پر بین الاقوامی سفارتی دباؤ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مئی 2018 سے ایرانی جوہری معاہدے سے نکل چکے ہیں اور اس کی وجہ سے ایران پر شدید ترین امریکی پابندیاں نافذ ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں شدید کمی اور کورونا وائرس کی وبا نے بھی مشرقِ وسطیٰ کی تمام معیشتوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں، تاہم ایران پر یہ اثرات اور بھی زیادہ سخت ہیں۔
ایرانی مرکزی بینک کے سربراہ عبدالنصر ہمتی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی قرار داد کی وجہ سے پیدا ہونے والے نفسیاتی اثرات نے ریال کو متاثر کیا، تاہم ایرانی اقتصادیات اس دباؤ کا مقابلہ کر سکتی ہے۔
پانچ سو ملین امریکی ڈالر روز چھپتے ہیں
امریکی ڈالر کی چھپائی کا نگران ادارہ بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ ہے۔ یہ امریکی حکومتی ادارہ گزشتہ ڈیڑھ سو برسوں سے ملکی کرنسی ڈالر چھاپنے کا ذمہ دار ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
دولت کی فیکٹری
بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ (BEP) امریکا میں ڈالر کی چھپائی کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس کے مرکزی دفتر کا سامنے والا حصہ پرانی وضع کے کسی قلعے جیسا ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
ڈالر کلاک
ڈالر کی چھپائی کے کمرے کو دیکھنے کے لیے سالانہ بنیاد پر دس لاکھ افرد آتے ہیں۔ ان افراد کو خصوصی نگرانی میں اس کمرے سے گزارا جاتا ہے۔ اس عمارت میں ایک بڑی جسامت کا گھڑیال بھی نصب ہے۔ اس کے ہندسے بھی ڈالر نوٹ سے بنائے گئے ہیں۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
سبز رنگ اور ڈالر
امریکی ڈالر کی سکیورٹی کا سب سے اہم پہلو سبز رنگ ہے۔ اس رنگ کی تیاری انتہائی سخت سکیورٹی میں کی جاتی ہے۔ یہ طریقہٴ کار کُلی طور پر اِس امریکی ادارے کے کنٹرول میں ہے۔ اس ادارے کے ملازم ایڈ میجا ایک ایسے شخص ہیں، جو اس سبز رنگ بنانے کے ماہر ہیں۔ یہ نوٹ پر ابھری ہوئی چھپائی کے نگران بھی ہیں۔ اُن کے زیر کنٹرول مشین ایک گھنٹے میں امریکی ڈالر والی دس ہزار شیٹس پرنٹ کرتی ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
ڈالر چھپائی کی نگرانی
امریکی ڈالر کی طباعت کے ماہر انسپیکٹر ہمہ وقت نگرانی کرتے ہیں۔ ایک امریکی ڈالر کو طباعت کے بعد تین دن خشک ہونے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ چھپائی کے بعد انہیں ایک انتہائی محفوظ گودام میں رکھا جاتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر 560 ملین نوٹ چھاپے جاتے ہیں۔ ایک ڈالر کی چھپائی کا خرچہ 3.6 سینٹ ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
ڈالر کی چھپائی اور چار آنکھوں کا اصول
ایک ڈالر کی چھپائی کو معیاری قرار دینے کے لیے سخت اصول وضع کیے گئے ہیں۔ ہر سکیورٹی علاقے میں کوئی بھی شخص اکیلے کام نہیں کرتا۔ بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ کے ایک ملازم کی سالانہ اوسط تنخواہ ترانوے ہزار ڈالر ہے۔ یہ اوسط امریکی تنخواہ سے دوگنا ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
نوٹ پر نمبر کا اندراج
امریکی ڈالر کی چھپائی کا آخری مرحلہ اُس پر سیریل نمبر پرنٹ کرنا ہوتا ہے۔ یہ نمبر ڈالنے والی مشین ہاتھ سے استعمال کی جاتی ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
امریکی ڈالر کے ڈبے
امریکی ڈالر کو گنتی کئی مرحلوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ آخری گنتی کے بعد دس بنڈل کو انتہائی سخت پلاسٹک کے اندر رکھا کر محفوظ کیا جاتا ہے۔ ان کو ایک ٹرالی پر رکھ کر منتقل کرنا بھی بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ کے ملازم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ امریکا کے مرکزی بینک کو نئے چھپے ہوئے ڈالر کی حتمی ترسیل تک اُس کا سیریل نمبر خفیہ رکھا جاتا ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
سکیورٹی پر کوئی سمجھوتا نہیں
بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ کا سکیورٹی عملہ دو ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ یہ اس چھپائی مرکز کے مختلف مقامات پر ہمہ وقت نگرانی کی جاتی ہے۔ ساری عمارت کی سکیورٹی انسانوں کے علاوہ خصوصی نظام سے بھی کی جاتی ہے اور اس کو روکنے یا سارے دفتر کو تالہ بند کرنے کے لیے صرف ایک سرخ بٹن کو دبانا درکار ہوتا ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
عملے کے افراد بھی ہنسی مزاح کرتے ہیں
بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ کے عملے کے افراد جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہونے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مزاح بھی کرتے رہتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے آنیا اسٹائن بوخ اور مشیل ماریک نے اس ادرے کا دورہ کیا تھا۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
9 تصاویر1 | 9
اپنی ایک انسٹاگرام پوسٹ میں ہمتی کا کہنا تھا، ''کورونا کی وجہ سے پیدا شدہ صورت حال، زرمبادلہ کا عارضی دباؤ اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی قرارداد کے نفسیاتی اثر سے غلط اشارہ پیدا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
انہوں نے مزید لکھا، ''تیل سے آمدن میں کمی کے باوجود ملک کے زرمبادلہ کے حالات اچھے ہیں اور مرکزی بینک امریکی دباؤ کے باوجود ضروری کرنسی کی سپلائی جاری رکھے گا۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ حالیہ کچھ برسوں میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں ایرانی ریال کی قدر میں ستر فیصد کمی واقع ہو چکی ہے۔ ستمبر 2018 میں ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں ایرانی ریال ایک لاکھ نوے ہزار پر دیکھا گیا تھا۔