’ایک ہاتھ میں قرآن، دوسرے میں کمپیوٹر‘، مودی
12 اپریل 2014![مسلمانوں کے لیے مودی کہتے ہیں:’’میں یہ سمجھتا ہوں کہ ٹوپیاں پہنے ہوئے وہ لوگ، جن کے ایک ہاتھ میں قرآن ہے، اُن کے دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر ہونا چاہیے۔‘‘](https://static.dw.com/image/17548027_800.webp)
بھارت میں عام انتخابات کا سلسلہ سات اپریل کو شروع ہوا تھا۔ ہفتہ بارہ اپریل کو چوتھے مرحلے میں جنوبی ریاست گوا کے ساتھ ساتھ ملک کے دُور افتادہ شمال مشرقی علاقوں میں بھی ووٹ کاسٹ کیے گئے۔ اس دوران ماؤ نواز باغیوں کی جانب سے کیے جانے والے دو دھماکوں کی زَد میں آ کر کم از کم 14 افراد ہلاک ہو گئے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کو تفصیلات بتاتے ہوئے ایک سینئر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ایک پولنگ ٹیم کے سات اہلکار اُس وقت مارے گئے، جب ریاست چھتیس گڑھ میں اُن کی بس کو ایک بارودی سرنگ کے دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ بارودی سرنگ ہی کے ایک اور دھماکے میں انتخابات کی سکیورٹی پر متعین پانچ اہلکاروں کے ساتھ ساتھ دو اور افراد بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ دوسرا دھماکہ اُس جگہ سے قریب ہی ہوا، جہاں باغیوں نے گزشتہ سال مئی میں چھتیس گڑھ کی کانگریس پارٹی کی چوٹی کی قیادت کو فائرنگ کے ایک تبادلے میں قتل کر دیا تھا۔
اسی دوران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور ملک کے آئندہ ممکنہ وزیر اعظم نریندر مودی اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش میں ہیں کہ وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کی جانب معاندانہ رویہ رکھتے ہیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق آج شام ٹیلی وژن پر اُن کا ایک انٹرویو نشر ہونے والا ہے، جس میں اُنہوں نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ تین سال پہلے ریاست گجرات میں اُنہوں نے ایک مسلمان عالم کی جانب سے دی گئی ٹوپی پہننے سے انکار کیوں کر دیا تھا۔
ٹیلی وژن چینل نے انٹرویو کا جو پیشگی متن جاری کیا ہے، اُس میں مودی نے کہا ہے کہ ’مَیں اپنی روایات کے مطابق جیتا ہوں اور اسی لیے مَیں صرف لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے ایک ٹوپی پہن کر تصویر نہیں اترواؤں گا‘۔
بھارت کی 1.2 ارب کی آبادی کا تیرہ فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ان عام انتخابات میں ہندو مسلم تعلقات ایک کلیدی موضوع ہیں کیونکہ مودی پر یہ الزام ہے کہ اُنہوں نے ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے 2002ء کے اُن فسادات میں مسلمانوں کو بچانے کے لیے کافی کوشش نہیں کی تھی، جن کے دوران کم از کم ایک ہزار مسلمان مارے گئے تھے۔
نریندر مودی، جو تین مرتبہ ریاست گجرات میں وزیر اعلیٰ رہے اور دائیں بازو کے ہندو گروپ راشٹریہ سیوک سَنگھ کے بانی ارکان میں سے ہیں، اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ یا اُن کی جماعت کسی قسم کا مذہبی تعصب رکھتی ہے۔
مودی نے اپنے آج کے انٹرویو میں مسلمانوں کی ترقی اور خوشحالی کی بھی بات کی ہے کیونکہ معاشی اعتبار سے اور ملازمتوں کے اعتبار سے بھی مسلمان ہندو اکثریت سے بہت پیچھے ہیں۔ مودی کہتے ہیں:’’میں یہ سمجھتا ہوں کہ ٹوپیاں پہنے ہوئے وہ لوگ، جن کے ایک ہاتھ میں قرآن ہے، اُن کے دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر ہونا چاہیے۔‘‘
مودی کی جماعت بی جے پی ملازمتوں اور نئے اقتصادی ڈھانچے کے وعدوں کے ساتھ راہول گاندھی کی کانگریس پارٹی کو اقتدار سے ہٹانے کی امید کر رہی ہے۔
ایک روز قبل ملکی الیکشن کمیشن کی جانب سے مودی کے سب سے قریبی ساتھی امیت شاہ کی انتخابی جلسوں اور اجتماعات میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی تھی کیونکہ اُنہوں نے مبینہ طور پر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کی تھیں۔ امیت شاہ 2002ء کے فسادات کے دوران ماورائے عدالت قتل کے مقدمات میں بھی نامزد ہیں۔ اُس دور میں بھی وہ ریاستی حکومت میں مودی کے تحت فرائض انجام دے رہے تھے۔