ایک ہزار ارب ڈالر سے زائد کی گلوبل منی لانڈرنگ کا انکشاف
21 ستمبر 2020
امریکی وزارت خزانہ کی خفیہ دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر فعال بہت سے بڑے بڑے بینک اپنی ناقص کارکردگی اور لاپروائی کے باعث عالمی سطح پر ایک ٹریلین ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں شریک رہے ہیں۔
اشتہار
یہ پریشان کن انکشاف صحافیوں کے ایک انٹرنیشنل نیٹ ورک کی طرف سی کی گئی طویل چھان بین کے بعد ممکن ہوا۔ اس انکشاف کی بنیاد وہ خفیہ رپورٹیں بنیں، جو دنیا کے مختلف بینکوں نے مالیاتی جرائم کی روک تھام کے نیٹ ورک یا 'فِن سَین‘ (FinCEN) کو جمع کرائیں۔
فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک کی ان فائلز سے پتا چلا ہے کہ مشکوک مالی ادائیگیوں کی صورت میں کی جانے والی اس منی لانڈرنگ میں جرمنی کے سب سے بڑے اور دنیا کے بہت بڑے بڑے بینکوں میں شمار ہونے والے ڈوئچے بینک نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ ان میں سے بہت سی ادائیگیاں ایران اور روس جیسے ممالک کے خلاف عائد کردہ بین الاقوامی پابندیوں اور ان کی شرائط پورا کرنے سے بچنے کے لیے کی گئیں۔
'فِن سَین‘ امریکی وزارت خزانہ کا ذیلی دفتر
فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک امریکی وزارت خزانہ کا ایک ذیلی دفتر ہے۔ اس دفتر کی اب منظر عام پر آ جانے والی بےتحاشا دستاویزات سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ جرمنی کا ڈوئچے بینک اس امر سے باخبر تھا کہ وہ ایک مالیاتی ادارے کے طور پر ایسی مشکوک ادائیگیوں کا حصہ بن رہا تھا، جن کی مجموعی مالیت ایک ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ تھی۔
یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اس بینک نے مبینہ طور پر ان ادائیگیوں کے لیے اپنی خدمات اس وقت بھی مہیا کیں، جب وہ پہلے ہی یہ وعدہ بھی کر چکا تھا کہ وہ آئندہ صرف رقوم کی شفاف اور غیر مشکوک منتقلی میں ہی حصہ لے گا۔
صحافتی چھان بین کا دائرہ کار
اس انکشاف کی وجہ بننے والی فائلیں سب سے پہلے بَز فیڈ نیوز نے حاصل کیں اور پھر انہیں تحقیقاتی صحافت کرنے والے صحافیوں کے ایک بین الاقوامی کنسورشیم کو مہیا کر دیا گیا۔ اس کنسورشیم ICIJ نے اس ڈیٹا کی گزشتہ 16 ماہ کے دوران 88 ممالک میں 400 صحافیوں کی مدد سے پوری چھان بین کرائی۔ پھر جو نتائج اخذ کیے گئے، انہوں نے بینکاری کے بین الاقوامی شعبے کی اصل کارکردگی کو بے نقاب کر دیا۔
جہاں تک جرمنی کے ڈوئچے بینک کا تعلق ہے، تو اس ادارے نے اپنے ہاں سے رقوم کی مشکوک منتقلی کے جن واقعات کی امریکا میں فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک کو اطلاع دی، وہ FinCEN کو رپورٹ کیے گئے ایسے واقعات کا 62 فیصد بنتے ہیں۔ ایسی رپورٹوں کو بینکاری کی زبان میں Suspicious Activities Reports یا SARs کہتے ہیں اور ان کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یہ رپورٹ مصدقہ طور پر کسی مالیاتی جرم کا ثبوت بھی ہے۔
سونے سے بھری ہیں ان ملکوں کی تجوریاں
گزشتہ چند سالوں سے دنیا کے پہلے دس مرکزی بینکوں میں سونے کے ذخائر میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے خزانے بھرے ہوئے ہیں کتنے سونے سے
یورپ میں سب سے زیادہ سونا جرمنی کی ملکیت جرمنی ہے۔ اس ملک کے پاس 3371 ٹن سونا موجود ہے۔
تصویر: picture-alliance / dpa
1۔ امریکا
سب سے زیادہ سونے کے ذخائر رکھنے والے ممالک کی فہرست میں نمبر ایک پر امریکا ہے۔ امریکا کے مرکزی بینک کے پاس 8133.5 ٹن سونا ہے۔ مصنف: اپووروا اگروال (ب ج، ع ا)
ان دستاویزات کے مطابق 1999ء اور 2017ء کے درمیان پوری دنیا میں مجموعی طور پر دو ٹریلین ڈالر (1.68 ٹریلین یورو) کی ٹرانزیکشنز ایسی تھیں، جنہیں مشکوک قرار دے کر فِن سَین کو اطلاع کی گئی تھی۔ ایسی اطلاعات دیے جانے کی وجوہات اکثر یہ ہوتی ہیں کہ متعلقہ رقوم کی منتقلی شاید کالے دھن کو سفید بنانے، بین الاقوامی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یا پھر مجرمانہ سرگرمیوں سے ہونے والی آمدنی پر پردہ ڈالنے کے لیے کی جا رہی ہے۔
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔
ڈوئچے بینک رقوم کی اس عالمگیر منتقلی کے عمل میں اتنا زیادہ شامل رہا تھا کہ جن دو ٹریلین ڈالر کی ٹرانسفر کی کئی برسوں کے دوران FinCEN کو اطلاعات دی گئیں، ان میں سے 1.3 ٹریلین ڈالر یا تقریباﹰ 1.1 ٹریلین یورو صرف جرمنی کے ڈوئچے بینک کے ذریعے منتقل کیے گئے تھے۔
ڈوئچے بینک کو ماضی میں کیا گیا جرمانہ
یورپ کے بہت بڑے بینکوں میں شمار ہونے والا ڈوئچے بینک ماضی میں بھی کئی ایسے معاملات میں ملوث رہا ہے، جن کی وجہ سے اسے بہت بڑے جرمانے بھی کیے گئے تھے۔
اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ماضی میں اس ادارے نے جو مشکوک مالی ادائیگیاں کی تھیں، ان کے امریکی پابندیوں کے برخلاف ہونے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے 2015ء میں اس بینک کو 258 ملین ڈالر جرمانہ بھی کیا گیا تھا۔ تب اس بینک نے اس جرمانے کی ادائیگی پر اتفاق کیا تھا اور یہ ادا کر بھی دیا تھا۔
ایران کو کرنسی کے بجائے سونے میں ادائیگی
ان خفیہ دستاویزات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایران کے خلاف عائد بین الاقوامی پابندیوں کے تحت جب ایرانی بینکوں کو SWIFT نامی گلوبل ٹرانزیکشن سسٹم سے خارج کر دیا گیا تھا، تو ایران کے لیے یہ ممکن نہیں رہا تھا کہ اسے اس کے برآمدی تیل اور گیس کے لیے ادائیگیاں انٹرنیشنل بینک ٹرانسفر کے ذریعے کی جا سکیں۔
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Ernesto
5 تصاویر1 | 5
تب ان پابندیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے ایران نے کرنسی کے بجائے سونے کی شکل میں یہ ادائیگیاں قبول کرنا شروع کر دی تھیں۔
اس کام میں ایرانی نژاد ترک شہری رضا ضراب نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
رضا ضراب سونے کا تاجر تھا اور اس کے ذریعے ایران کو اربوں ڈالر کی ادائیگیاں اسی قیمتی دھات کی شکل میں کی گئی تھیں۔
رضا ضراب کا اعتراف جرم
رضا ضراب نے 2017ء میں ایک امریکی عدالت میں یہ اعتراف کر لیا تھا کہ وہ اپنی سرگرمیوں کے ذریعے اس امر کا مرتکب ہوا تھا کہ امریکی پابندیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے ایران کی مدد کرے۔
ضراب کو دسمبر 2013ء میں ترکی سے منی لانڈرنگ اور سونے کی اسمگلنگ کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا تھا۔
فِن سَین دستاویزات کے منظر عام پر آنے سے ہونے والے انکشافات نے واضح کر دیا ہے کہ کس طرح دنیا کے مختلف ممالک میں بظاہر بہت شفاف بینکاری کرنے والے بڑے بڑے نامی گرامی ادارے بھی عالمی سطح پر ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں، جن کے ذریعے مروجہ قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رقوم کی مشکوک منتقلی کی گئی یا مالیاتی جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔
پیلِن اُئنکر (م م / ا ا)
دنیا کی کمزور اور مضبوط ترین کرنسیاں
ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی پانچ مضبوط ترین اور پانچ کمزور ترین کرنسیاں کون سے ممالک کی ہیں اور پاکستانی روپے کی صورت حال کیا ہے۔ جانیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
1۔ کویتی دینار، دنیا کی مہنگی ترین کرنسی
ڈالر کے مقابلے میں سب سے زیادہ مالیت کویتی دینار کی ہے۔ ایک کویتی دینار 3.29 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس چھوٹے سے ملک کی معیشت کا زیادہ تر انحصار تیل کی برآمدات پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Al-Zayyat
2۔ بحرینی دینار
دوسرے نمبر پر بحرینی دینار ہے اور ایک بحرینی دینار کی مالیت 2.65 امریکی ڈالر کے برابر ہے اور یہ ریٹ ایک دہائی سے زائد عرصے سے اتنا ہی ہے۔ کویت کی طرح بحرینی معیشت کی بنیاد بھی تیل ہی ہے۔
تصویر: imago/Jochen Tack
3۔ عمانی ریال
ایک عمانی ریال 2.6 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس خلیجی ریاست میں لوگوں کی قوت خرید اس قدر زیادہ ہے کہ حکومت نے نصف اور ایک چوتھائی ریال کے بینک نوٹ بھی جاری کر رکھے ہیں۔
تصویر: www.passportindex.org
4۔ اردنی دینار
اردن کا ریال 1.40 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ دیگر خلیجی ممالک کے برعکس اردن کے پاس تیل بھی نہیں اور نہ ہی اس کی معیشت مضبوط ہے۔
تصویر: Imago/S. Schellhorn
5۔ برطانوی پاؤنڈ
پانچویں نمبر پر برطانوی پاؤنڈ ہے جس کی موجودہ مالیت 1.3 امریکی ڈالر کے مساوی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایک برطانوی پاؤنڈ کے بدلے امریکی ڈالر کی کم از کم قیمت 1.2 اور زیادہ سے زیادہ 2.1 امریکی ڈالر رہی۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
پاکستانی روپے کی صورت حال
ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں حالیہ دنوں کے دوران مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں امریکی ڈالر کی روپے کے مقابلے میں کم از کم مالیت 52 اور 146 پاکستانی روپے کے درمیان رہی اور یہ فرق 160 فیصد سے زائد ہے۔ سن 2009 میں ایک امریکی ڈالر 82 اور سن 1999 میں 54 پاکستانی روپے کے برابر تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam
بھارتی روپے پر ایک نظر
بھارتی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستانی روپے کے مقابلے میں مستحکم رہی۔ سن 1999 میں ایک امریکی ڈالر قریب 42 بھارتی روپوں کے برابر تھا جب کہ موجودہ قیمت قریب 70 بھارتی روپے ہے۔ زیادہ سے زیادہ اور کم از کم مالیت کے مابین فرق 64 فیصد رہا۔
تصویر: Reuters/J. Dey
5 ویں کمزور ترین کرنسی – لاؤ کِپ
جنوب مشرقی ایشائی ملک لاؤس کی کرنسی لاؤ کِپ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پانچویں کمزور ترین کرنسی ہے۔ ایک امریکی ڈالر 8700 لاؤ کپ کے برابر ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کرنسی کی قیمت میں کمی نہیں ہوئی بلکہ سن 1952 میں اسے کم قدر کے ساتھ ہی جاری کیا گیا تھا۔
4۔ جمہوریہ گنی کا فرانک
افریقی ملک جمہوریہ گنی کی کرنسی گنی فرانک ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی چوتھی کمزور ترین کرنسی ہے۔ افراط زر اور خراب تر ہوتی معاشی صورت حال کے شکار اس ملک میں ایک امریکی ڈالر 9200 سے زائد گنی فرانک کے برابر ہے۔
تصویر: DW/B. Barry
3۔ انڈونیشین روپیہ
دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا کی کرنسی دنیا کی تیسری کمزور ترین کرنسی ہے۔ انڈونیشیا میں ایک روپے سے ایک لاکھ روپے تک کے نوٹ ہیں۔ ایک امریکی ڈالر 14500 روپے کے مساوی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ایک امریکی ڈالر کی کم از کم قیمت بھی آٹھ ہزار روپے سے زیادہ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Zuma Press/I. Damanik
2۔ ویتنامی ڈانگ
دنیا کی دوسری سب سے کمزور ترین کرنسی ویتنام کی ہے۔ اس وقت 23377 ویتنامی ڈانگ کے بدلے ایک امریکی ڈالر ملتا ہے۔ بیس برس قبل سن 1999 میں ایک امریکی ڈالر میں پندرہ ہزار سے زائد ویتنامی ڈانگ ملتے تھے۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہتر پالیسیاں اختیار کرنے کے سبب ویتنامی ڈانگ مستقبل قریب میں مستحکم ہو جائے گا۔
تصویر: AP
1۔ ایرانی ریال
سخت امریکی پابندیوں کا سامنا کرنے والے ملک ایران کی کرنسی اس وقت دنیا کی سب سے کمزور کرنسی ہے۔ اس وقت ایک امریکی ڈالر 42100 ایرانی ریال کے برابر ہے۔ سن 1999 میں امریکی ڈالر میں 1900 ایرانی ریال مل رہے تھے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ڈالر کے مقابلے میں کم ترین اور زیادہ ترین ایکسچینج ریٹ میں 2100 فیصد تبدیلی دیکھی گئی۔