اٹلی: ایک ہزار سے زائد تارکین وطن کو سمندر سے بچا لیا گیا
11 مارچ 2023
بحیرہ روم میں مشکلات کا سامنا کرنے والی تارکین وطن کی کشتیوں میں سوار ایک ہزار سے زائد تارکین وطن بچا کر اطالوی بندرگاہوں پر پہنچایا دیا گیا۔
اشتہار
ہفتہ 11 مارچ کو اطالوی کوسٹ گارڈز نے سمندر میں پھنسی تین کشتیوں پر سوار ایک ہزار سے زائد تارکین وطن کو بچالیا ہے۔ یہ کشتیاں کالابریا کے بپھرے ہوئے سمندر میں مشکل صورتحال سے دو چار تھیں۔ اطالوی کوسٹ گارڈز کی ایک بحری کشتی 584 افراد کو ریجیو کالبریا کے ساحل پر لے آئی جبکہ 487 تارکین وطن کو کروٹون کی بندرگاہ پر پہنچایا گیا۔ یہ اسی علاقے کے قریب ہے جہاں 26 فروری کو ایک کشتی ڈوبنے کے سبب 74 افراد مارے گئے تھے جن میں ایک درجن سے زائد پاکستانی شہری بھی تھے۔ مقامی حکام کے مطابق سسلی کے ساحل کے قریب سے بھی 200 افراد کو سمندر سے بچایا گیا ہے اور آج انہیں کاتانیہ پہنچایا جا رہا ہے۔ بدھ کے روز سے اب تک چار ہزار سے زائد تارکین وطن غیر قانوی طریقے سے اٹلی پہنچے ہیں۔ گزشتہ برس مارچ کے پورے مہینے میں ایسے تارکین وطن کی تعداد 1300 رہی تھی۔
خبر رساں ایجنسی AGI کے مطابق یہ ریسکیو آپریشن اسی دن عمل میں آیا جب تقریباً دو ہفتے کشتی حادثے کے 74ویں شکار کی لاش ملی تھی، جو ایک پانچ سے چھ سال کے درمیانی عمر کی بچی کی تھی۔
26 فروری کو بحری جہاز کے حادثے کے بعد وزیر اعظم جارجیو میلونی کی سربراہی والی دائیں بازو کی حکومت کو کشتی کو بچانے کے لیے بروقت اور مؤثر اقدامات کی ناکامی پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔
جمعے کی رات دیر سے کوسٹ گارڈز کی شائع ہونے والی ویڈیوز میں ایک مچھلی پکڑنے والی بڑی کشتی بپھرے ہوئے سمندر میں ہچکولے کھاتی دکھائی دی جس کے ڈیک پر درجنوں افراد دکھائی دے رہے تھے۔ ساتھ ہی ایک ''ٹک بوٹ‘‘ اس کشتی کو کھینچنے کا کام انجام دیتی نظر آرہی تھی۔
یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ جمعہ کو کوسٹ گارڈ کی طرف سے شناخت کی گئی تیسری کشتی کی حالت کیا ہے۔
حالیہ دنوں میں بحیرہ روم کے ذریعے اطالوی ساحلی علاقوں تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے جہازوں کے حادثے نے روم حکومت کو اپنا دفاع کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
جمعرات کو وزیر اعظم میلونی نے کشتیوں کی تباہی کے قریبی مقام کوٹرو میں کابینہ کا اجلاس طلب کیا، اور ایک نئے حکم نامے کا اعلان کیا جس میں انسانی اسمگلرز کے خلاف سخت قید کی سزائیں شامل تھیں تاہم ان حکومتی فیصلوں میں تارکین وطنکی جان بچانے میں مدد کے لیے کوئی نیا اقدام شامل نہیں کیا گیا۔
دریں اثناء اطالوی وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ رواں سال اب تک 17,500 سے زیادہ انسان سمندر کے راستے اٹلی پہنچ چکے ہیں۔ یہ تعداد پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔