1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک ہزار سے زائد ترک سفارت کار جرمنی میں پناہ کی تلاش میں

1 اپریل 2018

جرمن حکومت کے تازہ اعداد وشمار کے مطابق دو سال قبل ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے ایک ہزار سے زائد ترک سفارتکاروں اور سرکاری ملازمین نے اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کروائی ہیں۔

Brandenburger Tor in türkischen Farben Symbolbild Asylsuchende aus der Türkei
تصویر: picture-alliance/dpa/K.D.Gabbert

جرمن وفاقی ادارہ برائے مہاجرت نے بتایا ہے کہ گزشتہ ماہ کے آغاز تک موصول ہونے والی ایک ہزار ترک باشندوں کی سیاسی پناہ کی درخواستوں میں سے ’دو سو اٹھاسی‘ ترک سفارتی پاسپورٹ کے حامل افراد ہیں جبکہ سات سو بہتر سروس پاسپورٹ یعنی ترک سرکاری یا ملازمتی پاسپورٹ کے حامل افراد شامل ہیں۔ سروس پاسپورٹ سرکاری ملاز مین کی کسی مخصوص سرکاری ذمہ داری کے لیے جاری کیا جاتا ہے۔

ترک بغاوت کے مبینہ منصوبہ سازوں کو جرمنی نے پناہ دے دی

جرمنی بغاوت کے مرکزی مشتبہ شخص کو ملک بدر کرے، ترکی

 

جرمنی میں رواں برس  ترک قومیت رکھنے والے چودہ سو سے زائد افراد نے سیاسی پناہ کی درخواست جمع کروائی ہے۔ جبکہ گزشتہ سال ساڑھے آٹھ ہزار ترک افراد کی سیاسی پناہ کی درخواستیں موصول ہوئی تھیں، جن میں سے ایک چوتھائی سے زائد افراد کی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کرلی گئی تھیں۔ تاہم سن 2016 کے دوران تقریبا پانچ ہزار سات سو ترک تارکین وطن میں سے ساڑھے چار سو افراد کی جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست کی منظوری دی گئی۔

’گولن سے روابط‘: ترکی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سربراہ کی گرفتاری

تصویر: picture-alliance/AA/B. Ozkan

واضح رہے ترکی میں پندرہ جولائی سن 2016 کو فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ترک سفارتکار، سرکاری ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ کی جانب سےجرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ قبل ازیں ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے سیاسی مخالفین اور فوجی بغاوت کے مشتبہ حمایتی افراد کے خلاف سخت کارروائی کے احکامات جاری کیے تھے۔ اس کے نتیجے میں تقریبا پچاس ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا اور ڈیڑھ لاکھ سرکاری ملازمین کو ان کے ے عہدوں سے برطرف یا معطل کردیا گیا تھا۔

ع-آ، ع-ا، ڈی پی اے

ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی کے یورپی یونین سے تعلقات کشیدہ

03:31

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں