ایک یورپی ملک کی پارلیمان 'خواتین کے حقوق‘ کے خلاف
6 مئی 2020
ہنگری کی پارلیمان نے یورپی کونسل کے اس معاہدے کی توثیق نہیں کی، جس کا مقصد خواتین پر تشدد کی روک تھام ہے۔ یہ دستاویز استنبول کنونشن کہلاتا ہے۔ ہنگری یورپی یونین کا رکن ملک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kisbenedek
اشتہار
وزیراعظم وکٹور اوربان کی 'فیدیس‘ پارٹی کے اراکین پارلیمان اور حکومت میں ان کے اتحادی کرسچئن ڈیموکریٹس نے اس حکومتی تحریری بیان کی تائید کی ہے، جس میں اس معاہدے کو ''تباہ کن صنفی نظریات‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ غیر قانونی ہجرت کی حمایت کرتا ہے۔ اس دوران اوربان حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ استنبول کنونشن کی توثیق کے سلسلے میں مزید کوئی اقدام نہ اٹھائے۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے،''ہمیں اپنے ملک، ثقافت، قوانین اور قومی اقدار کے دفاع کا حق حاصل ہے۔‘‘
اوربان اور ان کے حامی ماضی میں متعدد مرتبہ 'صنفی جنون‘ پر تنقید کر چکے ہیں۔تصویر: picture-alliance/AP Photos/MTI/T. Kovacs
یہ کنونشن 2011ء میں یورپی کونسل نے تیار کیا تھا تا کہ یورپی سطح پر خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے ایک قانونی لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے۔ اس معاہدے کی توثیق کرنے والی ریاستوں پر لازم ہو گا کہ وہ خواتین، بچیوں اور ہر طرح کے گھریلو تشدد کو قانونی طور پر ایک جرم قرار دیں اور خواتین کے خلاف ہر طرح کے امتیازی سلوک کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے۔
اس دستاویز پر 2014ء یورپی یونین کی متعدد ریاستوں نے دستخط کیے تھے اور ان میں ہنگری بھی شامل تھا۔ لیکن اس کے بعد سے ابھی تک بوڈا پیشٹ کی پارلیمان نے اس معاہدے کی توثیق نہیں کی۔ ہنگری کی پارلیمان میں خواتین ارکان کی تعداد انتہائی کم ہے۔ اس نئی پیش رفت کے بعد توثیق کا یہ عمل ایک مرتبہ پھر غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو گیا ہے۔
اوربان اور ان کے حامی ماضی میں متعدد مرتبہ 'صنفی جنون‘ پر تنقید کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سرکاری فرمان جاری کرتے ہوئے یونیورسٹی میں صنف پر تحقیق کرنے والے کورسز بند کر دیے گئے تھے۔
’مہاجرین کے روپ میں مسلمان حملہ آور یورپ آ رہے ہیں‘
تیسری مرتبہ ہنگری کے وزیراعظم منتخب ہونے والے وکٹور اوربان یورپی ممالک میں مہاجرین کی آمد کے خلاف اٹھنے والی نمائندہ آواز رہے ہیں۔ تارکین وطن کو ’زہر‘ اور مہاجرت کو ’حملہ‘ قرار دینے والے اوربان تنقید سے کبھی نہیں ڈرے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’مہاجرین کے روپ میں مسلم حملہ آور‘
اوربان نے جرمن روزنامے ’دی بلڈ‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا،’’میں ان لوگوں کو مسلم تارکین وطن نہیں بلکہ مسلمان حملہ آور سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ بڑی تعداد میں یورپ آئے یہ مسلمان مہاجر ہمیں متوازی معاشروں کی طرف لے کر جائیں گے کیوں کہ مسیحی اور مسلم سماج کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔‘‘ اوربان کا کہنا تھا کہ متنوع ثقافت محض ایک واہمہ ہے۔
تصویر: Reuters/F. Lenoir
’مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں‘
جرمن اخبار ’دی بلڈ‘ کے اس سوال پر کہ کیا یہ نا انصافی نہیں کہ جرمنی تو لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرے لیکن ہنگری چند کو بھی نہیں، اوربان نے کچھ یوں رد عمل ظاہر کیا،’’ مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں۔ مہاجرت سے ہنگری کی خود مختاری اور ثقافتی اقدار کو خطرہ ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’مہاجرت زہر ہے‘
یہ پہلی بار نہیں جب ہنگری کے اس رہنما نے مہاجرت پر تنقید کی ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں بھی اپنے ایک بیان میں اوربان نے کہا تھا کہ ہنگری کو اپنے مستقبل یا معیشت یا ملکی آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے کسی ایک بھی مہاجر کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا،’’ہمارے لیے مہاجرت حل نہیں بلکہ مسئلہ ہے، دوا نہیں بلکہ زہر ہے۔ ہمیں تارکین وطن کی ضرورت نہیں۔‘‘
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/P. Gorondi
’دہشت گردی اور ہم جنس پرستی کی درآمد‘
وکٹور اوربان نے سن 2016 کے اوائل میں بلڈ اخبار کو بتایا تھا،’’اگر آپ مشرق وسطیٰ سے لاکھوں کی تعداد میں غیر رجسٹرڈ شدہ تارکین وطن کو قبول کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اپنے ملک میں دہشت گردی، سامیت دشمنی، جرائم اور ہم جنس پرستی کو در آمد کر رہے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘
اوربان نے یورپی یونین کے رکن ریاستوں میں مہاجرین کی تقسیم کے کوٹے کے منصوبے پر بھی متعدد بار تنقید کی ہے۔ سن 2015 میں یورپی یونین سے متعلق خبریں اور تجزیے شائع کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’پولیٹیکو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہنگری کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ ’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Bozon
متوازی معاشرے
پولینڈ اور آسٹریا جیسی ریاستیں بھی مہاجرین کے حوالے سے ہنگری جیسے ہی تحفظات رکھتی ہیں اور یوں اوربان کے اتحادیوں میں شامل ہیں۔ سن 2015 میں اسپین کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں اوربان کا کہنا تھا،’’ہم کس قسم کا یورپ چاہتے ہیں۔ متوازی معاشرے؟ کیا ہم چاہتے ہیں مسلمان اور مسیحی افراد ساتھ ساتھ رہیں؟‘‘