ایک یونانی کیمپ میں پھنسے ساڑھے چار سو پاکستانی تارکین وطن
شمشیر حیدر3 اگست 2016
یونان میں موریا نامی صرف ایک کیمپ میں ہی ساڑھے چار سو پاکستانی تارکین وطن موجود ہیں۔ ترکی اور یورپ کے مابین معاہدہ خطرے کی زد میں ہونے کے بعد ان لوگوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ اس سوال کا جواب ابھی کسی کے پاس نہیں۔
اشتہار
گزشتہ برس کے آغاز سے اب تک یورپی یونین میں ستر ہزار سے زائد پاکستانی تارکین وطن سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں دے چکے ہیں۔ یورپ میں عام طور پر پاکستانی تارکین وطن کو ’معاشی وجوہات کی بنا پر ہجرت‘ کرنے والے تصور کیا جاتا ہے، جنہیں سیاسی پناہ دیے جانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ایسی ہی صورت حال کئی ماہ سے یونان کے موریا کیمپ میں رہنے والے پاکستانیوں کی بھی ہے جو ترکی اور یورپی یونین کے مابین تارکین وطن کی واپسی سے متعلق طے پانے والے معاہدے کے بعد سے اس کیمپ میں رہنے پر مجبور ہیں۔
ستائیس سالہ محمد ندیم پاکستانی پنجاب کے شہر وزیر آباد کا رہائشی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ندیم نے بتایا کہ وہ پاکستان میں مزدوری کرتا تھا اور معاشی صورت حال سے پریشان ہو کر اس نے یورپ کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس پاکستانی محنت کش کے مطابق وہ اپنے رشتہ داروں سے لاکھوں روپے ادھار لے کر انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایک مقامی ایجنٹ کو دیے، جس نے اسے ایران کے راستے ترکی تک پہنچا دیا۔
رواں برس فروری کے اواخر میں وہ بحیرہ ایجیئن عبور کر کے یونانی جزیرے لیسبوس تک تو پہنچ گیا لیکن تب تک جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک تک پہنچنے کے راستے بند ہو چکے تھے۔
ندیم کا کہنا ہے، ’’میں ستائیس فروری کو یونان پہنچا تو معلوم ہوا کہ پولیس خاص طور پر پاکستانیوں کو پکڑ رہی ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگ چھپتے پھرتے رہے لیکن آخر کار تیرہ اپریل کو پولیس نے مجھے متلینی سے گرفتار کر کے موریا کیمپ پہنچا دیا۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے دو بچوں کے باپ ندیم کا کہنا تھا کہ کیمپ میں ساڑھے چار سو پاکستانی تارکین وطن موجود ہیں، جن میں تین پاکستانی خاندان بھی ہیں۔ ندیم کے مطابق، ’پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت کا تعلق پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین سے ہے اور تین خاندانوں کے علاوہ باقی سبھی نوجوان مرد ہیں۔‘‘
اس کیمپ میں رہنے والے پناہ گزینوں کو صرف دن کے اوقات ہی میں کیمپ سے باہر نکلنے کی اجازت ہے۔ ندیم کو شکوہ ہے کہ یونانی پولیس کے اہلکار خاص طور پر پاکستانیوں سے نامناسب رویہ اختیار کرتے ہیں۔
[No title]
وزیر آباد کے اس رہائشی نے سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواست تو دے رکھی ہے لیکن اب تک وہ دانستاﹰ انٹرویو دینے سے گزیز کرتا رہا۔ اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ندیم کا کہنا تھا، ’’میں اس وجہ سے انٹرویو نہیں دے رہا کیوں کہ سبھی پاکستانی تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ فیملی کے ساتھ ہیں، انہیں بھی پناہ نہیں دی گئی۔ اب تک صرف ایک پاکستانی مسیحی شہری کی پناہ کی درخواست منظور کی گئی ہے۔‘‘
ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق طے پانے والے معاہدے کے مطابق اس سال مارچ کے بعد ترکی سے یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو واپس بھیج دیا جانا تھا۔ اب تک اس معاہدے کے تحت چند سو تارکین وطن کی واپسی ہی ہو سکی ہے لیکن ان کی اکثریت پاکستانی شہری تھی۔
ترکی میں بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سے اس معاہدے کے مستقبل کے بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں۔ ندیم کا کہنا ہے کہ وہ کسی صورت بھی نہ تو ترکی واپس جانا چاہتا ہے اور نہ ہی وہ پاکستان۔ اس کے یونان سے نکل کر مغربی یورپ پہنچنے کے امکانات کے بارے میں اسے کوئی امید نہیں ہے لیکن اس کی خواہش ہے کہ وہ اسے لیسبوس ہی میں کام کرنے کی اجازت مل جائے تو وہ کم از کم اپنے رشتہ داروں کا قرض اتارنے کے قابل ہو سکے گا۔
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘