حکومتی احکامات پر معروف پاکستانی ٹی وی چینل اے آر وائی کی بندش پر صحافتی برداری نے ملک بھر میں احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ معاملہ چینل پر فوج سے متعلق ایک متنازعہ بیان کے بعد شروع ہوا۔
اشتہار
پاکستان کی سابقہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے اہم رہنما اور سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گِل نے اس ٹی وی چینل پر اپنے ایک بیان میں فوج سے متعلق سخت جملے استعمال کیے تھے۔ جس کے بعد شہباز گل پر فوجی اہلکاروں کو اپنے افسران کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام عائد کیے گئے تھے۔ اسی تناظر میں شہباز گل کو گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ یہ بیان نشر کرنے والے ٹی وی چینل اے آر وائی کا لائسنس واپس لینے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
پاکستانی حکومتی موقف ہے کہ اس ٹی وی چینل نے 'فوج مخالف‘ بیان نشر کر کے ''پاکستانی کی قومی سلامتی کے لیے خطرات‘‘ پیدا کیے ہیں۔ تاہم پاکستانی صحافیوں کی وفاقی تنظیم فیڈرل یونین آف جرنلسٹس PFUJ کے صدر افضال بٹ نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات چیت میں کہا ہے کہ اس چینل کا لائسنس بحال کیا جائے۔ ''ہم چینل کی فوری بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دوسری صورت میں ہم پورے ملک میں احتجاج کریں گے۔‘‘
میڈیا انتظام سے متعلق پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے جمعے کو اے آر وائی نیوز کا لائسنس منسوخ کر دیا تھا۔پیمرا کے مطابق، ''یہ احکامات ملکی ایجنسیوں کی جانب سے اس چینل سے متعلق خراب رپورٹوں کے تناظر میں جاری کیے گئے۔‘‘
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اے آر وائی نیوز جسے سابق وزیراعظم عمران خان کا حامی سمجھا جاتا ہے، پیر کے روز اس وقت بند کر دیا گیا تھا، جب عمران خان کے ایک مشیر نے ایک پروگرام میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ فوجی افسران کو اپنے افسران بالا کے ایسے احکامات ماننے سے انکار کر دینا چاہیے جو غیرقانونی ہوں یا جو ملکی اکثریتی رائے کے خلاف ہوں۔اس بیان کے کچھ دیر بعد شہباز گل کو بغاوت کے الزامات کے تحت حراست میں لے لیا گیا تھا۔
’صحافت کی آزادی‘ کے شکار صحافی
صحافیوں کو ان کی ذمہ داریوں کے دوران گرفتارکیا جاتا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی مرتبہ قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ یہ صحافی اکثر حکومتوں، جرائم پیشہ گروہوں یا مذہبی انتہاپسندوں کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hamed
روس: نکولائی آندرشتشینکو
نکولائی آندرشتشینکو کو روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں سرعام ایک سڑک پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انیس اپریل 2017ء کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ آندرشتشینکو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جرائم کے خلاف لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ صدر ولادیمیر پوٹن جرائم پیشہ گروہوں اور کے جی بی کے جانشین روسی خفیہ ادارے کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اقتدار میں آئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Usov
میکسیکو: میروسلاوا بریچ
میروسلاوا بریچ کو تئیس مارچ 2017ء کو ان کے گھر کے سامنے سر میں آٹھ گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ میکسیکو کی یہ صحافی منشیات فروش گروہوں کے راز فاش کیا کرتی تھی۔ وہ مارچ میں میکسیکو میں قتل ہونے والی تیسری صحافی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. Tischler
عراق: شیفا گہ ردی
شیفا گہ ردی پچیس فرروی 2017ء کو شمالی عراق میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ہلاک ہوئیں۔ ایران میں پیدا ہونے والی شیفا اربیل میں قائم کرد خبر رساں ادارے ’روودوا‘ کے لیے کام کرتی تھیں۔ انہیں عراق میں ملکی دستوں اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مابین جاری جنگ کے بارے میں رپورٹنگ کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تصویر: picture alliance/dpa/AA/F. Ferec
بنگلہ دیش: اویجیت رائے
امریکی شہریت کے حامل اویجیت رائے اپنے بلاگ ’مکتو مونا‘ یعنی’کھلا ذہن‘ کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔ وہ خاص طور پر سائنسی حقائق اور مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں لکھتے تھے۔ وہ فروری 2015ء میں ایک کتاب میلے میں شرکت کے لیے ڈھاکہ آئے تھے۔ مذہبی انتہا پسندوں نے تیز دھار چاپٹروں سے ان پر حملہ کرتے ہوئے انہیں قتل کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. U. Zaman
پاکستان: زینت شہزادی
24 سالہ پاکستانی صحافی زینت شہزادی کو انیس اگست 2015ء کو مسلح افراد نے اس وقت اغوا کر لیا تھا جب وہ ایک رکشے میں سوار ہو کر اپنے دفتر جا رہی تھیں۔ وہ لاپتہ ہونے والے ایک شخص کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ زینت پاکستانی افواج کی طرف سے تعاقب کا شکار بنیں۔
تصویر: humanrights.asia
ازبکستان: سالیجون عبدالرحمانوف
عبدالرحمانوف 2008 ء سے منشیات رکھنے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق حکومتی اہلکاروں نے عبدالرحمانوف کو خاموش کرانے کے لیے ان پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا۔
ترکی : ڈینیز یوچیل
ترک نژاد جرمن صحافی ڈینز یوچیل فروری 2017ء سے ترکی میں زیر حراست ہیں۔ جرمن جریدے دی ویلٹ کے اس صحافی پر دہشت گردی کا پرچار کرنے اور عوام میں نفرت پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ انقرہ حکومت ابھی تک ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.Merey
چین: گاؤ یُو
گاؤ یُو ماضی میں ڈوئچے ویلے کے لیے کام کر چکی ہیں۔ وہ 2014ء سے سرکاری راز افشا کرنے کے جرم میں قید میں ہیں۔ انہیں سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ بین الاقوامی دباؤ کے بعد گاؤ کو جیل سے رہا کر کے ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔
تصویر: DW
آذربائیجان: مہمان حسینوف
حسینوف ایک آن لائن سماجی اور سیاسی میگزین کے مدیر ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانیوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ اپنے ملک کے اس سب سے معروف ویڈیو بلاگر کو بہتان تراشی کے الزام میں مارچ 2017ء میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی
تصویر: twitter.com/mehman_huseynov
مقدونیا: ٹیموسلاف کیزاروفسکی
ٹیموسلاف کیزاروفسکی کو جنوب مشرقی یورپ کا واحد سیاسی قیدی کہا جاتا ہے۔ کیزاروفسکی ایک صحافی کے قتل کے واقعے میں اصل حقائق تک پہنچنے کی کوششوں میں تھے اور اس دوران انہوں نے پولیس کی خفیہ دستاویزات کا بھی حوالہ دیا تھا۔ اکتوبر 2013ء کی ایک متنازعہ عدالتی کارروائی کے اختتام پر انہیں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی گئی، جسے بعد میں دو سالہ نظر بندی میں تبدیل کر دیا گیا۔
تصویر: DW/K. Blazevska
10 تصاویر1 | 10
صحافتی تنظیم کے سربراہ افضال بٹ نے کہا کہ بغیر قانونی راستہ اپنائے، نیوز چینل کی بندش سے متعلق حکومتی احکامات نے ہزاروں صحافیوں کو بے روز گار کر دیا ہے۔
اس سے قبل اے آر وائی کی انتظامیہ نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومتی فیصلے سے اس چینل سے وابستہ تین ہزار سے زائد صحافیوں اور دیگر افراد کی ملازمتیں خطرے میں ہیں۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے اپنے بیان میں تاہم نیوز چینلز سے بھی کہا ہے کہ وہ آزادی رائے کا غلط استعمال نہ کریں۔
یہ بات اہم ہے کہ اے آر وائی ماضی میں بھی معطلی کا سامنا کر چکا ہے، جب کہ برطانیہ میں مختلف سیاستدانوں سے متعلق غلط خبریں نشر کرنے پر اسے جرمانوں کا سامنا بھی رہا ہے۔