1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اے ایف ڈی سے مہاجرین کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟

26 ستمبر 2017

جرمن پارلیمانی الیکشن کے نتائج کئی حلقوں کے لیے دھچکے کا باعث ہیں۔ اسلام اور مہاجرت مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی 12.6 فیصد ووٹ حاصل کرکے پارلیمان میں پہنچ گئی ہے۔ یہ پیشرفت مہاجرین کے لیے کسی پریشانی کا پیش خیمہ تو نہیں؟

Erfurt - Demonstrationen gegen die Asylpolitik
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schutt

چوبیس ستمبر کے جرمن پارلیمانی انتخابات کے ابتدائی نتائج کے مطابق اسلام اور مہاجرت مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی (اے ایف ڈی)  پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں پہلی مرتبہ کوئی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت کو جرمن بنڈس ٹاگ یعنی پارلیمان تک پہنچنے میں کامیابی ہوئی ہے۔ اگرچہ اس انتخابی عمل میں انگیلا میرکل کا قدامت پسند سیاسی اتحاد (سی ڈی یو/ سی ایس یو) دیگر پارٹیوں پر سبقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور وہی حکومت سازی کرے گا لیکن اے ایف ڈی کی کامیابی کو جرمن سیاسی منظر نامے پر ایک خطرے کی گھنٹی قرار دیا جا رہا ہے۔

ووٹرز کا اعتماد بحال کروں گی، میرکل کا عہد

مہاجر اور اسلام مخالف پارٹی اے ایف ڈی پہلی بار پارلیمان میں

اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق

اے ایف ڈی کے سیاسی منشور سے واضح نہیں ہوتا کہ یہ مستقبل میں کیسا جرمنی دیکھنا چاہتی ہے اور وہ اس ملک میں آباد غیر ملکیوں کا ملکی ترقی میں کیا کردار دیکھتی ہے۔ اس پارٹی کے پالیسی بیان کے مطابق ’کثیرالثقافتی جرمنی سماجی امن اور ملکی کلچرل یونٹ کے لیے سنگین خطرہ ہے‘۔ کئی سیاسی ناقدین کے مطابق سن دو ہزار تیرہ میں وجود میں آنے والی سیاسی پارٹی اے ایف ڈٰی طویل المدتی بنیادوں پر سیاست کرنے میں ناکام ہو جائے گی۔

جرمنی میں انتخابات کیسے ہوتے ہیں؟

01:27

This browser does not support the video element.

جب پہلی مرتبہ یہ پارٹی ووٹرز تک پہنچی تھی تو اس نے مشترکہ یورپی کرنسی یورو کی مخالفت کا نعرہ بلند کیا تھا۔ سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں اس پارٹی نے ’پہلے جرمنی‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے یورپی یونین کی مخالفت بھی کی تھی۔

گزشتہ الیکشن میں اس پارٹی کو 4.7 فیصد ووٹ پڑے تھے اور وہ پارلیمان تک پہنچنے میں ناکام ہو گئی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمنی میں کسی بھی پارٹی کو پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے کی خاطر کم ازکم پانچ فیصد ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

اپنی تخلیق کے بعد اے ایف ڈی کو قیادت کے بحران کا سامنا بھی رہا۔ چوبیس ستمبر کے الیکشن میں تاریخی کامیاب کے بعد اب اس پارٹی کی شریک چیئر پرسن فراؤ کے پیٹری نے اس پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ کئی ناقدین کے خیال میں یوں یہ پارٹی مزید دائیں بازو کے نظریات کی طرف مائل ہو جائے گی۔ ماضی میں بھی کئی سیاستدان اس پارٹی کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔

اس پارٹی نے جرمنی میں مہاجرین کے بحران کے شروع ہونے کے بعد اپنا ایجنڈا بدلتے ہوئے اسلام اور مہاجرت مخالف نعرہ بلند کیا تھا۔ اس الیکشن میں اے ایف ڈی کی کامیابی کی بڑی وجہ بھی یہی نعرہ بنا ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق انگیلا میرکل کی مہاجر پالیسی سے نالاں ووٹرز نے انہیں چھوڑ کر ای ایف ڈی کو چُنا ہے۔ اس الیکشن میں کم ازکم دس لاکھ ایسے ووٹرز نے اے ایف ڈی کو ووٹ دیے، جو گزشتہ الیکشن میں میرکل کے حامی تھے۔

اے ایف ڈی کی یہ جیت عوامیت پسندی پر مبنی جذبات کے باعث ہوئی ہے اور ناقدین کے مطابق یہ جذباتی ابال وقتی ثابت ہو گا کیونکہ عملی سیاسی معاملات سے نبردآزما ہونے کی خاطر جوش نہیں ہوش کی ضرورت ہوتی ہے۔ ادھر میرکل نے اس عہد کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں سے روٹھے ہوئے ووٹرز کا اعتماد بحال کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔

AfD کی شریک سربراہ پارٹی چھوڑ دیں گی

اے ایف ڈی مہاجرین مخالف جذبات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں

اگرچہ اے ایف ڈی اپنی اس جیت پر خوشیاں منا رہی ہے لیکن ممکنہ طور پر یہ خوشیاں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہیں گے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اے ایف ڈی پارلیمان میں سب سے بڑی اپوزیشن بننے کے خواب دیکھ رہی تھی لیکن اب سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کی طرف سے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کے اعلان نے اے ایف ڈی کو پارلیمان میں کچھ پیچھے دھکیل دیا ہے۔

تاہم اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فی الحال اے ایف ڈی جرمن پارلیمان میں دیگر سیاسی پارٹیوں کو کڑا وقت دے گی۔ اس پارٹی کے رہنما الیگزانڈر گاؤلانڈ کہہ چکے ہیں کہ وہ پارلیمان میں میرکل کا احتساب کریں گے اور مہاجرین کی پالیسی پر انکوائری کروانے کی کوشش کی جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وہ جرمن عوام کو ان کا جرمنی، واپس دلوائیں گے۔

متبادل برائے جرمنی (اے ایف ڈی) جرمن پارلیمان میں تیسری بڑی سیاسی طاقت ہے لیکن یہ سوال برقرار ہے کہ کیا اس پارٹی کی قیادت اپنے سیاسی منشور پر قائم رہ سکے گی؟ ماضی کی مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بالخصوص جدید یورپ میں عوامیت پسند پارٹیوں کی عمر زیادہ نہیں ہوتی اور اس کی قیادت میں اختلافات کے باعث یہ غیر محسوس طریقے سے بے اثر ہو جاتی ہیں۔ اس صورتحال میں کہا جا سکتا ہے کہ جرمنی میں آباد غیر ملکیوں کو اس پارٹی کے پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے سے خطرہ محسوس نہیں کرنا چاہیے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں