1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

تھیورنگیا میں اے ایف ڈی کی فتح میں تارکین وطن اہم معاملہ

5 ستمبر 2024

جرمنی میں 2023ء میں نفرت پر مبنی جرائم کی تعداد اس سے ایک برس قبل کے مقابلے میں تقریباﹰ 50 فیصد زیادہ تھی۔ جرمنی کی مشرقی ریاستوں میں دائیں بازو کی جماعت کی کامیابی نے تارکین وطن کو خدشات میں مبتلا کر دیا ہے۔

اے ایف ڈی کےخلاف مظاہرے کا منظر
تصویر: Wolfgang Rattay/REUTERS

شامی ڈاکٹر همام رزوق کو نو سال قبل اس وقت راحت ملی جب وہ دمشق سے فرار ہونے کے بعد جرمنی پہنچے۔ خانہ جنگی کے شکار شام میں رزوق اپنے سیاسی عقائد کی وجہ سے دو بار جیل جا چکے تھے۔

لیکن اتوار یکم ستمبر کو جرمنی کی ایک مشرقی ریاست تھیورنگیا میں ہونے والے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اور تارکین وطن مخالف جماعت اے ایف ڈی کی کامیابی نے، ان کی اہلیہ کو قریب روزانہ کی بنیاد پر نسل پرستی کا سامنا کرنے کے سبب انہیں یہ ریاست چھوڑنے پر قائل کر لیا ہے۔

دو جرمن ریاستوں میں انتخابات، اے ایف ڈی کی بڑی کامیابی

ریاستی انتخابات میں ناکامی، جرمن حکومت کی ’جڑیں ہل گئیں‘

39 سالہ همام رزوق کو خدشہ ہے کہ اگر اے ایف ڈی ریاست تھیورنگیا میں حکومت تشکیل دینے کے قابل نہیں بھی ہے تو بھی تھیورنگیا میں نسل پرستی کی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ خیال رہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں اے ایف ڈی کے ساتھ مل کر کام کرنے سے انکار کر چکی ہیں۔

ڈاکٹر رزوق کے بقول، ''یہ ایسا ہے جیسے آپ کے چہرے پر ایک بہت بڑا مسئلہ ہو اور سڑک پر چلتے ہوئے لوگ آپ کو عجیب انداز میں دیکھتے ہوں۔ ہمیں اب بھی نئے لوگوں یا اجنبیوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘‘

وہ ان 10 تارکین وطن میں سے ایک تھے جن سے خبر رساں ادارے روئٹرز نے تھیورنگیا میں بات کی۔ سبھی نے نسل پرستی سے متعلق اپنے تجربات بیان کیے اور کہا کہ وہ انتہائی دائیں بازو کے عروج کے بارے میں فکرمند ہیں۔

اتوار کو ہونے والے ریاستی انتخابات میں قوم پرست اور تارکین وطن مخالف اے ایف ڈی نے تھیورنگیا میں تقریبا 33 فیصد ووٹ حاصل کیے اور ہمسایہ ریاست سیکسنی میں 30 فیصد سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں کسی ریاستی اسمبلی کے انتخابات جیتنے والی پہلی انتہائی دائیں بازو کی جماعت ہے۔

زولنگن حملہ اور جرمنی ميں مسلم کميونٹيز کو درپيش چيلنجز

02:57

This browser does not support the video element.

همام رزوق نے شام سے آنے کے بعد جلد ہی جرمن زبان سیکھ لی اور اب وہ ریاست کے دارالحکومت ایئرفورٹ کے قریب ایک ہسپتال میں اینستھیٹیسٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں مریضوں کی طرف سے احترام ملتا ہے اور وہ کام کی جگہ کے ماحول سے مطمئن ہیں لیکن ان کی اہلیہ کو، جو حجاب پہنتی ہیں، ہر روز نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے: ''میں سڑک پر بہت محتاط ہوتا ہوں۔ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ عربی بولتا ہوں، تو میں اپنی آواز کم رکھنے کی کوشش کرتا ہوں یا اگر کوئی قریب ہے تو جرمن زبان میں بات کرتا ہوں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ وہ اے ایف ڈی کی انتخابی کامیابی پر حیران نہیں، لیکن مایوس ضرور ہیں اور اس کی کامیابی نے ان کے کچھ کام کرنے والے ساتھیوں کو پارٹی کی حمایت میں کھل کر آواز اٹھانے کا حوصلہ دیا ہے۔

رزوق کے مطابق تھیورنگیا میں دیگر تارکین وطن بھی، جنہیں وہ جانتے ہیں، اے ایف ڈی کی کامیابی سے خوفزدہ ہیں۔ ریاست تھیورنگیا میں غیر ملکی، مجموعی آبادی کا 7.6 فیصد ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے بہت ہی کم لوگ اب بھی یہاں رہنا چاہتے ہیں۔ رزوق نے مزید کہا کہ وہ اپنی اہلیہ کے فارماسسٹ کے طور پر گریجویٹ ہونے کے بعد جرمنی کی مغربی ریاستوں میں سے کسی ایک میں منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

جرمنی کے لیبر مارکیٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ 'آئی اے بی‘ کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق تھیورنگیا میں ہنر مند کارکنوں کی اشد ضرورت ہے، اور اس ریاست میں صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں چار میں سے تین خالی آسامیوں کو گزشتہ ایک سال کے اندر پر نہیں کیا جا سکا، کیونکہ مناسب درخواست دہندہ ہی موجود نہیں۔

برٹلزمین فاؤنڈیشن کے ایک جائزے کے مطابق، اگر یہی رجحان جاری رہا، تو یہ ریاست تھیورنگیا میں لیبر کی کمی کا مسئلہ بڑھ سکتا ہے، جہاں 2040 تک ملازمت پیشہ افراد کی تعداد تقریباﹰ 20 فیصد تک سکڑنے کی توقع ہے اور یہ قومی اوسط سے دوگنا ہے۔

نقل مکانی اور جرمن باشندوں کے خدشات

تھیورنگیا میں ووٹ دینے والے تقریبا آدھے لوگوں نے اے ایف ڈی یا 'ساہرہ ویگنکنیچٹ الائنس‘ (بی ایس ڈبلیو) کی حمایت کی۔ یہ جماعت بھی سیاسی پناہ کی سخت پالیسیوں کا مطالبہ کرتی ہے اور اس نے 15.8 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

جرمنی کے وزیر خزانہ کرسٹیان لِنڈنر نے تھیورنگیا کی سیاسی صورتحال کا ذمہ دار وفاقی حکومت کی مہاجرت کی پالیسی کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جرمن اس حقیقت سے تنگ آ چکے ہیں کہ حکومت امیگریشن اور سیاسی پناہ کا کنٹرول کھو چکی ہے۔

جرمنی کے وزیر خزانہ کرسٹیان لِنڈنر نے تھیورنگیا کی سیاسی صورتحال کا ذمہ دار وفاقی حکومت کی مہاجرت کی پالیسی کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جرمن اس حقیقت سے تنگ آ چکے ہیں کہ حکومت امیگریشن اور سیاسی پناہ کا کنٹرول کھو چکی ہے۔تصویر: Marco Steinbrenner/DeFodi Images/picture alliance

جرمن 'انسٹی ٹیوٹ فار نیو سوشل آنسرس‘ (آئی این ایس اے) کے سربراہ ہیرمان بِنکیرٹ کے مطابق انتخابات سے ایک ہفتہ قبل مغربی شہر زولنگن میں ایک شامی پناہ گزین کی طرف سے کیے جانے والے مہلک چاقو حملے نے غیر منظم نقل مکانی کے بارے میں رائے دہندگان کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔

سابق چانسلر انگیلا میرکل کے 2015 میں 10 لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کو سرحد پار کر کے جرمنی میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے فیصلے کے اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ''اس کے علاوہ، 2015ء کے حوالے سے اب بھی تھوڑا صدمہ موجود ہے۔‘‘

زولنگن حملے نے جرمنی کی وفاقی حکومت کو پناہ گزینوں کی پالیسیوں کو سخت کرنے اور ملک بدری میں تیزی لانے کے اقدامات متعارف کرانے پر مجبور کیا۔

جرمن سینٹر فار انٹیگریشن اینڈ مائیگریشن ریسرچ (ڈی زیڈ آئی ایم) کی محقق زینپ یاناس میان ویگلے نے کہا کہ یوکرین میں جنگ سے فرار ہونے والے پناہ گزینوں کی آمد اور 2023ء میں پناہ کی درخواستوں میں اضافے نے بھی مہاجرت پر عوامی بحث کو ہوا دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سستے گھروں کی کمی اور مزدوروں کی کمی جیسے سماجی مسائل کو اکثر سیاست دانوں کی جانب سے حد سے زیادہ آسان بنا دیا جاتا ہے اور غلط طور پر نقل مکانی سے منسوب کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس موضوع کو 'غیر سیاسی‘ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

نفرت پر مبنی جرائم

جرمنی کے جرائم سے متعلق دفتر کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں 2023ء میں نفرت پر مبنی جرائم کی تعداد 17,007 ہو گئی، جو اس سے ایک برس قبل کے مقابلے میں تقریباﹰ 50 فیصد زیادہ تھی۔

ایئرفورٹ میں انضمام کی سماجی کارکن یارا مایاسا نے اے ایف ڈی کے ابھرنے کی وجہ جرمنی کی انضمام کی پالیسیوں میں غلط توجہ کو قرار دیا ہے: ''یہ آگاہی کا مسئلہ ہے۔ جب سے ہم جرمنی پہنچے ہیں، تمام اقدامات میں تارکین وطن میں تعلیم اور شعور اجاگر کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ لیکن ہم نے میزبان برادری کے شعور کو بڑھانے پر کبھی کام نہیں کیا ہے۔‘‘

تھیورنگیا میں نفسیات کے طالب علم 28 سالہ علی ہواجے نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ اے ایف ڈی کی کامیابی اس کے حامیوں کو پناہ گزینوں پر حملے کرنے کی ترغیب دے گی: ''میں ابھی کے لیے یہیں رہوں گا اور دیکھوں گا کہ چیزیں کس طرح آگے بڑھتی ہیں۔ اگر حالات خراب ہوتے ہیں ، اگر جارحیت ہوتی ہے، اگر لوگ زخمی ہوجاتے ہیں تو میرا فیصلہ تبدیل ہو سکتا ہے۔‘‘

کئی دہائیوں سے مفرور سابق جرمن دہشت گرد گرفتار

01:46

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں