1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اے روزنِ تہہ خانہ یہ لَو کسی فن کی ہے؟

3 اگست 2018

بلیک اینڈ وائٹ میوزیکل ڈراموں سے لے کر ایکشن موویز تک، عبدالقادر الایوبی ہر طرح کی فلموں کی اسکرینگ کرتے ہیں اور وہ بھی کرکوک جیسے شہر میں، جسے سنیما فری زون سمجھا جاتا ہے۔

Irak Kino
تصویر: DW/Al-Saidy

الایوبی نے یہ سنیما ایک تہہ خانے میں قائم کر رکھا ہے۔ اس سنیما گھر میں آٹھ ایم ایم، سولہ ایم ایم اور پینتیس ایم ایم کی فلمیں، پروجیکٹرز اور پردہء سیمیں موجود ہیں اور وہ سیکنڈ ہینڈ ڈیلرز سے فلمیں خرید کر مہنگا ٹکٹ لگا کر دکھاتے ہیں۔

مشیر برائے تعلیم اور فلموں سے محبت کرنے والے الایوبی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ’’ستر کی دہائی میں کرکوک میں پانچ سنیما گھر ہوا کرتے تھے، خیام، حمرا، العمین، اٹلس اور صلاح الدین۔‘‘

برلن میں ’طیفا ان ٹربل‘ کا پریمیئر، ’پیسے وصول‘ ہو گئے

سعودی عرب: سنیما گھر شروع، وجہ اقتصادی یا پھر روشن خیالی

ان سنیما گھروں میں شہر بھر کے لوگ آیا اور فلمیں دیکھا کرتے تھے، مگر پھر انیس سو اسی میں ایران کے ساتھ جنگ شروع ہو گئی اور یہ جنگی تنازعہ پھر طویل عرصے تک جاری رہا۔ بعد میں کسی نہ کسی حد تک جنگ کا سلسلہ جاری رہا اور کچھ برس قبل یہ علاقہ دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے قبضے میں چلا گیا۔ گزشتہ برس دسمبر میں تین سال تک لڑائی کے بعد بغداد حکومت نے اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کو پسپا کر کے اس شہر پر دوبارہ قبضہ کیا۔

اس کے بعد اس شہر میں گو کہ پرتشدد واقعات میں نمایاں کمی ہوئی ہے، تاہم اس تاریخی اور ثقافت کے اعتبار سے رنگا رنگ شہر میں جیسے زندگی لوٹنے میں ابھی خاصا وقت درکار ہے۔

اب بھی بغداد سمیت عراق بھر میں سنیما اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے دیگر عوامی مقامات کے علاوہ شاپنگ مال تک خطرات کا شکار ہیں اور اب بھی کہیں نہ کہیں کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آ جاتا ہے۔

کرکوک شہر جس میں کرد، عرب اور ترکمان برادریاں رہتی ہیں، کہیں کسی سنیما کا وجود باقی نہیں اورہ وجہ سلامتی کے مسائل ہیں۔

59 سالہ الایوبی نے اسی لیے اپنے گھر کے تہہ خانے میں ایک سنیما قائم کر رکھا ہے، جہاں مقامی افراد جاتے ہیں اور فلمیں دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خوف کے مارے لوگ فلمیں ڈی وی ڈی یا انٹرنیٹ کے ذریعے دیکھتے ہیں، تاہم ان کے گھر کے تہہ خانے میں قائم سنیما گھر کا رخ کرنے والے سنیما کا مزہ لے سکتے ہیں۔

ع ت، ع الف (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں