باؤہاؤس کے نوّے برس: جدیدیت اور سہولت کا امتزاج
30 مارچ 2009آرکیٹیکچر اور اشکال سے متعلق باؤہاؤس تحریک دنیا کی ایک ایسی غیر معمولی تحریک مانی جاتی ہے جس نے بیسویں صدی کے آرکیٹیکچر، فنِ کاریگری اور اشیائے تصرف کی جمالیات کو اس حد تک متاثر کیا کہ آج باؤہاؤس کا تخلیق کیا ہوا انداز دنیا بھر کے انسانوں کا مشترکہ ’لائف اسٹائل‘ یا ذندگی گزارنے کا طریقہ بن گیا ہے۔
باؤہاؤس اسکول کی بنیاد انیس سو انیس میں جرمن آرکیٹیکٹ والٹر گروپیئس نے شہر وائمار میں ڈالی۔ بعد میں یہ اسکول ایک تحریک کی شکل اختیار کرگیا۔ پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد تخلیق کیے جانے والے اس اسکول نے انیس سو تینتیس تک جرمنی کے مختلی شہروں کا سفر کیا۔ جدیدیت سے منسلک اس تحریک نے نہ صرف یہ کہ آرکیٹیکچر پر غیر معمولی اثر ڈالا بلکہ اس کے اثرات فنِ مصوری، گرافک ڈیزائننگ، انٹیریئر ڈیزائننگ، صنعتوں کے ڈیزائن اور ٹائپوگرافی پر بھی واضح دکھائی دیتے ہیں۔
آج باؤہاؤس اسکول باؤہاؤس یونیورسٹی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ وائمار شہرمیں، جہاں سے اس تحریک کا آغاز ہوا تھا، ابھی سے باؤہاؤس کے سو سال پورے ہونے کے حوالے سے ایک میوزیئم کی تیّاری زیرِ غور ہے۔
باؤہاؤس کے بانی والٹر گروپیئس اٹھارہ سو تراسی میں برلن میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک آرکیٹیکٹ یا تعمیراتی فن کا کام کرنے والے گھرانے سے تھا۔ وہ اپنی لیباریٹری یا اسکول میں نہ صرف تعمیراتی ہنر کے استعمال کو اہمیت دیتے تھے بلکہ انھوں نے ایک ایسا علمی ماحول پیدا کر رکھا تھا جس میں استاد اور شاگرد ایک دوسرے سے سیکھ سکتے اور ایک دانشمندانہ ماحول میں کام کر سکتے۔ خود والٹر گروپیئس کا اس بارے میں یہ کہنا تھا: ’میرے لئے ہمیشہ یہ امر غیر معمولی اہمیت کا حامل رہا کہ ایک ایسا ماحول فراہم کیا جائے جس میں ہر کسی کو سیکھنے اور سمجھنے کے عمل میں مکمل خود مختاری حاصل ہو۔
میری ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ شاگردوں کوانکے استاد کی نقل کرنے سے روکا جائے اور انہیں زندگی کی حقیقتوں سے مکمل طور پر آشنا کیا جائے تاکہ وہ خود اپنی فعلیاتی اور نفسیاتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر تعمیری اور تخلیقی کام انجام دی سکیں‘
ماہرین کے مطابق آج کی دنیا میں باؤہاؤس کلچر سے صرفِ نظر کرنا تقریباً ناممکن ہےچاہے آپ اس تحریک کے بارے میں جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں۔ یہ آج کے ’لائف اسٹائل‘ کا حصّہ بن چکا ہے۔ مثلاء گلاس ٹاورز یا شیشے سے بنی عمارتیں۔ ہم کتنی ہی بار ان کو دیکھتے ہیں مگر ہم میں سے بیشتر یہ نہیں جانتے کہ یہ جدید آرکیٹیکچر کی وہ شکل ہے جس کو والٹر گروپیئس اور دیگر جرمن فنکاروں نے پہلی جنگِ عظیم کے بعد اس مقصد سے تشکیل دینا شروع کیا تھا کہ صنعتی انقلاب سے قبل جس نوعیت کی عمارات تعمیر کی جاتی تھیں اور جس طرح کا سامانِ تصرّف بنایا جاتا تھا وہ باؤہاؤس اسکول کے بانیوں کے نذدیک جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
باؤہاؤس اندازِ تعمیر پر روشنی ڈالتے ہوئے گروپیئس نے ایک بار کہا تھا: ’آپ زرا تصور کیجئے کہ آپ ایک کمرا تعمیر کر رہے ہیں جسکا ایک خاص سائز ہونا چاہئے اور اسکی تعمیر میں خاص قسم کا مواد استعمال ہونا چاہئے۔ تاہم آپ اس کمرے کی ظاہری شکل ایسی بنانا چاہتے ہیں کہ اسے دیکھنے والے کی نفسیات پر اس کا گہرا اثر ہو۔ مثلاٍ اگر میں ایک کمرے کی چھت کو مدھم سیاہ رنگ سے رنگ دوں تو ایسا لگے گا کہ چھت نیچے چلی آ رہی ہے مگر اسی کو اگر چمکیلے سیاہ رنگ سے رنگا جائے تو دیکھنے والے کو چھت اتنی نزدیک نہیں لگے گی۔ اسی طرح گہرے زرد رنگ کی چھت سر سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جبکہ آبی یا ہلکے نیلے رنگ کی چھت نگاہوں کہ بھلی بھی لگتی ہے اور اسکے بہت قریب آنے کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ یہ سب چیزیں فعلیاتی نہیں بلکہ نفسیاتی ہیں اور انہیں ہم نے نظم وتربیت کے ساتھ سیکھا ہے‘
مثال کے طور پر، باؤہاؤس کے بانی یہ چاہتے تھے کہ وقت کے ضیاع کے بغیر بڑے پیمانے پر فرنیچر تیّار کیا جائے۔ اگر کسی کرسی یا اسٹول میں لوہا لگا ہے اور اس کے اسکریو دکھائی دے رہے ہیں تو یہ بری چیز نہیں ہے بلکہ ’نئی جمالیات‘ کا حصّہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہٹلر کے اقتدار میں آنے کے بعد باؤہاؤس تحریک کو ’غیر جرمن‘ قرار دے دیا گیا اور اس کو عتاب کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم یہ تحریک اور یہ انداز اس قدر جان دار تھا کہ اس کے فروغ کو کوئی بھی نہ روک سکا۔ آج جرمنی میں باؤہاؤس کے بڑے بڑے اسٹورز ہیں جہاں آپ گھر بنانے اور گھر کی آرائش کا تمام تر سامان خود خرید سکتے ہیں، اسے خود جوڑ سکتے ہیں۔ کیلوں اور ہتھوڑی سے لے کر قالین، کرسی، میز، ایسا کیا ہے جو باؤہاؤس کے ان اسٹورز میں نہیں ملتا۔ اور یہ سب بنا بنایا نہیں ہوتا۔ میزوں کے پرزوں اور درازوں کو آپ خود ہی جوڑتے ہیں۔
جرمن ثقافتی شہر وائمار کی باؤہاؤس یونیورسٹی اور دیساؤ کی باؤہاؤس فاؤنڈیشن والٹر گروپیئس کے اس انوکھے تعمیراتی فن اور تصور کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ وائمر کی باؤہاؤس یونیورسٹی کے ریکٹر گیرڈ سمرمان کہتے ہیں: ’یہ دراصل باؤ ہاؤس کا پرانا تصور تھا جسے ہم نے نئے طریقے سے بروئے کار لایا ہے۔ یعنی ایک ایسی یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسیز کا قیام جس میں فن اور تکنیک دونوں کو مربوط کر دیا جائے۔ ایسا عموماٍ ہوتا نہیں ہے‘