بائبل میں مذکور، ہزاروں سال پرانا یہ ’سر‘ کس قدیم بادشاہ کا؟
9 جون 2018
اسرائیل سے ملنے والا ایک بادشاہ کے سر کا مجسمہ ماہرین آثار قدیمہ کے لیے ایک غیر معمولی راز بن گیا ہے۔ اسکلپچر کے طور پر بنایا گیا، مسیحیوں کی مقدس کتاب بائبل میں مذکور کسی بادشاہ کا یہ ’سر‘ قریب تین ہزار سال پرانا ہے۔
اشتہار
یروشلم سے ہفتہ نو جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق قدیم آرٹ کا نمونہ یہ اسکلپچر بین الاقوامی سطح پر بہت سے ماہرین آثار قدیمہ کے لیے اس لیے ’آج کے دور کا ایک بڑا معمہ‘ بن گیا ہے کہ وہ ابھی تک یہ پتہ نہیں چلا سکے کہ یہ ’سر‘ کس بادشاہ کے چہرے کی شبیہ ہے۔
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ کسی ایسے قدیم بادشاہ کے سر کی شبیہ ہو سکتی ہے، جو ان بادشاہوں میں سے ایک ہو، جن کا ذکر بائبل میں ملتا ہے اور جو مسیحیوں کی الہامی کتاب بائبل کے نزول سے بھی قریب ایک ہزار سال قبل اس علاقے میں زندہ تھے، جسے مؤرخین ’ارض مقدس‘ کا نام دیتے ہیں۔
یہ ’سر‘، جو محض پانچ سینٹی میٹر یا دو انچ طویل اسکلپچر ہے، آرٹ کے ان انتہائی نایاب نمونوں میں سے ایک ہے، جو ’ارض مقدس‘ میں نویں صدی قبل از مسیح میں بنائے گئے تھے۔ تاریخی حوالے سے یہ وہی دور تھا،جو ان قدیم بادشاہوں سے منسوب کیا جاتا ہے، جن کا ذکر انجیل میں بھی ملتا ہے۔
اس مجسمے کی خاص بات صرف اس کی جسامت ہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ یہ ابھی تک ناقابل یقین حد تک اچھی حالت میں ہے، سوائے اس کے کہ چہرے کے دائیں طرف سے اس کی داڑھی کا کچھ حصہ غائب ہے۔ ازمنہ قدیم کی تاریخی باقیات اور فن پاروں پر تحقیق کرنے والے محققین میں اس اسکلپچر کی وجہ سے اس لیے بھی بڑا جوش پایا جاتا ہے کہ ایسا کوئی نادر نمونہ انہیں آج سے پہلے ملا ہی نہیں تھا۔
سعودی عرب کے تاراج شہر میں خوش آمدید
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ملک کے دروازے سب کے لیے کھولنا چاہتے ہیں۔ مستقبل میں سیاح آثار قدیمہ کا ایک نایاب خزانہ دیکھنے کے قابل ہوں گے۔ العلا نامی یہ قدیمی نخلستان ملک کے شمال مغرب میں واقع ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
قدیم تہذیب
العلا کبھی خطے کے مختلف تجارتی راستوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ اس مقبرے کی طرح یہ علاقہ آثار قدیمہ کے خزانے سے بھرا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
ایک سو گیارہ مقبرے
مدائن صالح سعودی عرب کے مشہور شہر مدینہ سے تقریبا چار سو کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔ العلا کے مضافات میں واقع یہ آثار قدیمہ سن دو ہزار آٹھ سے عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں۔ دو ہزار برس پہلے یہاں پتھروں کو تراشتے ہوئے ایک سو گیارہ مقبرے بنائے گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
انجینئرنگ کا بہترین نمونہ
قدیم دور میں یہ قوم الانباط کا مرکزی اور تجارتی علاقہ تھا۔ یہ قوم اپنی زراعت اور نظام آبپاشی کی وجہ سے مشہور تھی۔ یہ قوم نظام ماسيليات (ہائیڈرالک سسٹم) کی بھی ماہر تھی اور اس نے اس خشک خطے میں پانی کے درجنوں مصنوعی چشمے تیار کیے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
قدیم زمانے کے پیغامات
قدیم دور کا انسان کئی پیغامات پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ یہ وہ جملے ہیں، جو دو ہزار برس پہلے کنندہ کیے گئے تھے۔ امید ہے سیاح انہیں نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
مل کر حفاظت کریں گے
سعودی ولی عہد نے فرانس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت دونوں ممالک مل کر ایسے قدیم شہروں کی حفاظت کریں گے تاکہ آئندہ نسلیں بھی ان کو دیکھ سکیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
ایک نظر بلندی سے
اس کے تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات سے پہلے اس سے متعلقہ تمام اعداد و شمار جمع کیے جا رہے ہیں۔ مارچ میں پیمائش کے دو سالہ پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس کے لیے سیٹلائٹ تصاویر، ڈرونز اور ہیلی کاپٹر استعمال کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سیاحوں کے لیے ویزے
ابھی تک صرف مخصوص شخصیات کو ہی ان آثار قدیمہ تک جانے کی اجازت فراہم کی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر سن دو ہزار پندرہ میں برطانوی پرنس چارلس کو العلا میں جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اب سعودی عرب تمام سیاحوں کی ایسے اجازت نامے فراہم کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/J. Stillwell
قیام گاہوں کی کمی
تین سے پانچ برسوں تک تمام سیاحوں کی رسائی کو العلا تک ممکن بنایا جائے گا۔ ابھی یہ شہر سیاحوں کی میزبانی کے لیے تیار نہیں ہے۔ فی الحال وہاں صرف دو ہوٹل ہیں، جن میں ایک سو بیس افراد قیام کر سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
8 تصاویر1 | 8
اس مجسمے کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کو یقین ہے کہ اس ’سر‘ پر جو سنہری تاج دکھایا گیا ہے، وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ شبیہ کسی بادشاہ کے سر کی ہے۔ لیکن یہ مجسمہ کس بادشاہ کے سر کا ہے اور وہ قریب تین ہزار سال پہلے کس ریاست کا حکمران تھا، اس بارے میں ماہرین ابھی تک یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔
اسرائیلی ماہرین آثار قدیمہ کو یہ چھوٹا سا اسکلپچر گزشتہ برس (2017ء میں) تاریخی مقامات کی کھدائی کے دوران جنوبی اسرائیل میں لبنان کے ساتھ سرحد کے قریب سے ملا تھا۔ تب ماہرین یہ کھدائی ایک ایسی جگہ پر کر رہے تھے، جو آبل (ہابیل) القمح یا عبرانی زبان میں Abel Beth Maacah کہلاتی ہے۔ یہ جگہ جنوبی اسرائیل میں آج کل کے المطلہ نامی قصبے کے نواح میں ہے۔
ماہرین آثار قدیمہ نے یہ بات 19 ویں صدی میں ہی دریافت کر لی تھی کہ آبل القمح نامی گاؤں اسی جگہ پر واقع ہے، جہاں اسی نام کا وہ قدیم شہر واقع تھا، جس کا ذکر بائبل کی ’بک آف کنگز‘ یا ’بادشاہوں کی کتاب‘ میں بھی ہے۔
م م / ش ح / اے پی
کاریز کیش: ایک حیرت انگیز، زیر زمین شہر
خلیج فارس کے ایرانی جزیرے کیش کو مشرق وسطیٰ کے اہم سیاحتی مراکز میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہاں ڈھائی ہزار برس قبل پانی ذخیرہ کرنے کے لیے تعمیر کردہ کاریز کا نظام اب ایک زندہ لیکن زیر زمین شہر بن چکا ہے۔
تصویر: khabaronline
ایرانی جزیرے کیش پر واقع اس انوکھے زیر زمین شہر کا مجموعی رقبہ دس ہزار مربع میٹر پر محیط ہے۔
تصویر: DW/Elahe Helbig
کیش جزیرے کے باسیوں نے زیر زمین کاریزوں کے اس نظام کی تعمیر قریب 500 برس قبل از مسیح میں کی تھی۔
تصویر: bartarinha
ان کاریزوں کا مقصد یہاں کے باسیوں کے لیے پانی ذخیرہ کرنا تھا۔
تصویر: khabaronline
اس جزیرے کے ایک حصے میں چودہ مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے علاقے میں موجود مختلف کنوؤں کا پانی زمینی دباؤ کے اصول کے تحت ان کاریزوں میں لایا جاتا تھا۔
تصویر: khabaronline
کاریزوں میں جمع کیے جانے والے پانی کو فلٹر کرنے کا ایک باقاعدہ نظام بھی تعمیر کیا گیا تھا۔
تصویر: bartarinha
پانی کی صفائی کے اس نظام کی ایک عمل کے طور پر اور طبعی حوالے سے بھی تین تہیں تھیں۔
تصویر: nasimeqaen
پہلی سطح پر مرجان کے پتھر پانی کی صفائی کے لیے قدرتی فلٹر کا کام کرتے تھے۔
تصویر: khabaronline
دوسری سطح پر ریتلی مٹی پانی کی مزید تطہیر کرتی تھی۔
تصویر: khabaronline
تیسرے درجے پر ’گل مارن‘ مٹی پانی میں موجود باریک ترین ذرات کو بھی فلٹر کر دیتی تھی۔
تصویر: bartarinha
بالائی سطح کا پانی آب پاشی کے لیے جب کہ تیسری اور سب سے نچلی سطح کا پانی پینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
تصویر: DW/Elahe Helbig
سب سے نچلی سطح پر موجود پینے کے پانی تک رسائی کے لیے سرنگیں بھی بنائی گئی تھیں، جن میں کشتیاں چلتی تھیں۔
تصویر: khabaronline
پھر گزرتے وقت اور آب پاشی کے جدید ذرائع کے باعث کیش کے باشندے اس نظام کاریز کو بھولتے ہی چلے گئے۔
تصویر: khabaronline
1999ء میں ایرانی حکام نے ان کاریزوں کو زیر زمین شاپنگ مالز میں بدل دینے کا فیصلہ کیا۔
تصویر: khabaronline
ان کاریزوں کے پرانے ڈھانچوں اور نیٹ ورک کو برقرار رکھتے ہوئے اس زیر زمین شہر کی تعمیر شروع کی گئی۔
تصویر: bartarinha
یہاں دوکانوں اور ریستورانوں کی تعمیر میں برسوں لگے لیکن نتیجہ یہ کہ یہاں زمین کے نیچے زندگی پھر سے سانس لینے لگی اور ایک پورا شہر جاگ اٹھا۔
تصویر: khabaronline
اپنی طرز کی یہ منفرد، جیتی جاگتی لیکن زیر زمین دنیا اب ہر سال ہزارہا سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔