1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

بائیڈن انتظامیہ پر افغان قیادت سے ملاقات سے قبل اندرونی دباؤ

امان اظہر، واشنگٹن
25 جون 2021

 بائیڈن انتظامیہ کی جمعہ 25 جون کو افغان صدر اشرف غنی اور قومی مفاہمت کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبد اللہ سے ملاقاتوں کے بارے میں ماہرین اور تجزیہ کار اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔

Afghanistan Ashraf Ghani und Joe Biden
تصویر: Presseabteilung des Präsidenten von Afghanistan

ماہرین کا خیال ہے کہ بائیڈن انتظامیہ امریکی حمایت جاری رکھنے کی یقین دہانی کے علاوہ افغان سیاسی قیادت کو ملکی مستقبل کے بارے میں اپنے اختلافات کو دور کرنے کی ترغیب دلائے گی۔

 امریکی صدر جو بائیڈن کی افغان اعلی قیادت سے ملاقات ایک ایسے وقت پمیں ہونے جا رہی ہے جب طالبان ملک کے مختلف علاقوں پر افغان سکیورٹی فورسز کے خلاف ایک بڑی فوجی کارروائی کر رہے ہیں۔ حال ہی میں متعدد شہروں پر حملے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز امریکی فورسز کی عدم موجودگی میں طالبان کی کارروائی کا مقابلہ نہیں کرسکیں گی۔ بائیڈن انتظامیہ نے 11 ستمبر تک افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کا اعلان کیا ہے۔ لیکن بائیڈن انتظامیہ کی افغانستان سے دستبرداری کی پالیسی حریف سیاسی کیمپوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بن رہی ہے ، جو وائٹ ہاؤس پر زور دے رہے ہیں کہ وہ انخلا کے بعد کے متبادل پر غور کریں۔

جو بائیڈن اور اشرف غنی کے درمیان ملاقات سے توقعات کیا ہیں؟ 

22 جون کو ریپبلکن قانون ساز لنڈسے گراہم نے ایک ٹویٹ میں انخلا کے بعد کے انتظامات میں پاکستان کو شامل نہ کرنے پر انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ جنوبی کیرولائنا سے تعلق رکھنے والے حزب اختلاف کے سینیٹر نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کا امریکی افواج کا پاکستان کے ساتھ معاہدے کے بغیر انخلا کا فیصلہ عراق سے بھی بدتر ثابت ہوسکتا ہے۔

اپریل میں امریکی وزیر خارجہ نے کابل میں عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی تھی۔تصویر: High Council for National Reconciliation Press Office/ REUTERS

ابھی تک، وائٹ ہاؤس نے اپنی افغان پالیسی پر تنقید پر کھلے عام رائے دینے سے گریز کیا ہے۔ افغانستان امور کے ماہر اور تجزیہ کار مارون وائن باؤم کا کہنا ہے کہ امریکی فورسز کے مکمل انخلا کے بارے میں انتظامیہ کے اندر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا ،'' امریکی فوج انخلا کی مخالف ہے۔ اور کچھ اشارے یہ بھی ملے ہیں کہ محکمہ خارجہ کے اعلٰی عہدیداروں نے بھی بائیڈن کو افغانستان سے عجلت میں انخلا کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ لیکن بائیڈن مختلف رائے سننے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔‘‘

طالبان سے متعلق بھارتی پالیسی میں بڑی تبدیلی

مارون وائن باؤم نے مزید کہا کہ ایک اور اہم مسئلہ افغان سیاسی اشرافیہ کے مابین جاری اختلافات ہیں جو سیاسی حکمرانی کے معاملات میں آپس کے اختلافات دور کرنے سے قاصر ہیں ، جس سے طالبان کو فائدہ بھی ہوا ہے اور انہوں نے افغان سیاستدانوں کی اس نا اہلی سے فائدہ اٹھایا ہے۔

مارون وائن باؤم نے کے بقول، '' حکومت کو زیادہ خطرہ سیاسی عمل کی ناکامی سے ہے کابل پر طالبان کے قبضے سے نہیں ۔‘‘ انہوں نے کہا کہ صدر غنی کی قیادت اب تک حل کیبجائے مسئلے کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔

افغانستان کا اُجڑا شہر لشکر گاہ بے گھر افراد کا سہارا، ماہرین آثار قدیمہ کو تشویش

 

ووڈرو ولسن انسٹیٹیوٹ کے ماہر امور جنوبی ایشیا مائیکل کوگل من۔تصویر: C. David Owen Hawxhurst / WWICS

ولسن سینٹر سے منسلک جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگل من نے کہا،'' غنی اور عبداللہ بائیڈن کا اعتماد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بائیڈن کو کہتے ہوئے سننا چاہتے ہیں کہ امریکا ترقیاتی امداد ، امن عمل کے لیے سفارتی مدد ، اور سب سے اہم بڑھ کر افغان فوج کے لیے مالی امداد فراہم کرتا رہے گا۔ وہ ایک ایسی فکر مند عوامی اور سیاسی قیادت کو یقین دلانے کی پوزیشن میں افغانستان واپس آنا چاہیں گے جب فوجیوں کے انخلا کے بعد امریکا افغانستان کو ترک نہیں کرے گا۔‘‘ کوگل من نے کہا امریکا افغانستان میں اثر و رسوخ کھو رہا ہے۔ وہ ایک اہم ملک تو رہے گا ، خاص طور پر اس کی مالی اور سفارتی طاقت کی وجہ سے، لیکن فوجی طاقت نا ہونے کا اس پر اثر ہو گا۔

افغانستان سےغیر ملکی افواج کا انخلا:جہادی سراُٹھا سکتے ہیں، ماہرین کا انتباہ

 

کُوگل من نے اس امر سے اتفاق کیا کہ بائیڈن کا ستمبر تک تمام فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ واشنگٹن میں متنازعہ تھا ، کیونکہ اس اقدام کے حق میں بہت کم اتفاق دیکنے میں آیا تھا۔ ان کے بقول،'' کیپیٹل ہل پر انخلا کے طاقتور مخالفین کا غلبہ ہے، اور وسیع تر سیاسی و عسکری قیادت میں بھی۔ اب وقت آگیا ہے کہ آپ اپنے فیصلے پر توجہ مرکوز کریں ، اور یہ دیکھیں کہ کس طرح اس فیصلے کو بہتر بنایا جا سکتا ہے‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ،'' افغانستان میں بگڑتی ہوئی سلامتی کی صورتحال کے پیش نظر ، انہیں یقین ہے کہ بائیڈن انتظامیہ افغانوں کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی جب کہ وہ ابھی بھی وہاں موجود ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ستمبر میں پُل آؤٹ کا وقت کم کرنا۔‘‘

افغانستان سے جرمن دستوں کا تیز رفتار انخلا اب چار جولائی سے

قندوز سے جرمن فرج کے انخلا کے آخری لمحات۔تصویر: picture-alliance/dpa/Bundeswehr

وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ '' امریکی حکومت افغانستان کی امداد جاری رکھے گی تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ یہ ملک کبھی بھی دہشت گرد گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نا بن پائے جو امریکا کے لیے خطرہ ہو۔ ‘‘ بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکا امن عمل کی مکمل حمایت کرتا ہے اور تمام افغان فریقوں کو تنازعات کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں معنی خیز حصہ لینے کی ترغیب دیتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں