امریکی صدر جو بائیڈن نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے حوالے سے بات چیت کی ہے۔ بائیڈن آرمینیائی'قتل عام‘ کو باضابطہ تسلیم کرنے پر بھی غورکررہے ہیں۔
اشتہار
امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب اردوآن کے ساتھ جمعے کے روز فون پر بات چیت کی۔ بائیڈن اس بات پر غور کررہے ہیں کہ آیا سن 1915 میں سلطنت عثمانیہ کے دور میں آرمینیائی عوام کے خلاف ظلم و جبر کے واقعات کو امریکا باضابطہ تسلیم کرے یا نہ کرے۔
یہ معاملہ ترکی کے ساتھ امریکی سفارت کاری کے لیے ہمیشہ سے ہی مشکل اور تنازعہ کا سبب رہا ہے۔ سابقہ امریکی صدورباہمی تعلقات خراب ہونے کے خدشے کے مدنظر اس معاملے کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ دوسری طرف ترکی'قتل عام‘کے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔
اشتہار
آرمینیائی 'قتل عام‘
دونوں ملکوں کے صدور کے درمیان پہلی فون کال کے حوالے سے امریکا اور ترکی کی حکومتوں نے جو بیانات جاری کیے ہیں ان میں آرمینیائی'قتل عام‘ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
سن 1915میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کی ہفتے کے روز 106ویں برسی ہے۔ ان واقعات میں ہزاروں آرمینیائی مارے گئے تھے اور ان کے ورثاء اسے عالمی برادری کی جانب سے قتل عام کا واقعہ قرار دیے جانے کے لیے ایک عرصے سے مہم چلارہے ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان جالینا پورٹر سے جب نامہ نگاروں نے پوچھا کہ کیا صدر بائیڈن اس حوالے سے ہفتے کے روز مجوزہ تقریب میں کوئی بیان دیں گے تو انہوں نے کہا،” کل(ہفتے کو) اعلان متوقع ہے۔"
ترکی کا کہنا ہے کہ یہ قتل عام کا واقعہ نہیں تھا بلکہ پہلی عالمی جنگ کے وسیع تر مضمرات کا نتیجہ تھا جس میں آرمینیائی نسل سے تعلق رکھنے والے باشندے ہلاک اور ملک بدر ہوئے تھے۔
ترکی کے دباؤ کے باوجود فرانس اور جرمنی جیسے کئی ممالک اس واقعے کو قتل عام قرار دے چکے ہیں تاہم بہت سے ممالک نے اسے باضابطہ قتل عام تسلیم نہیں کیا ہے۔ اگر امریکا بھی اسے قتل عام تسلیم کرلیتا ہے تو یہ اس کے لیے مہم چلانے والوں کی ایک بڑی کامیابی ہوگی۔
ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاؤش اوگلو نے گذشتہ ہفتے متنبہ کیا تھا کہ بائیڈن اگر ایسا کرتے ہیں تو اس سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں تلخی پیدا ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا،” اگر امریکا تعلقات خراب کرنا چاہتا ہے تو یہ فیصلہ کرنا اس کی مرضی ہے۔"
ترکی میں موجود ایغور مسلمان، چین بدر کیے جانے کے خوف میں
03:41
بائیڈن اور ایردوآن میں کیا بات ہوئی؟
وائٹ ہاوس کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ بائیڈن نے ایردوآن سے کہا کہ انہیں اختلافات کو ختم کرنے میں دلچسپی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے،”صدر بائیڈن نے ترک صدر رجب طیب اردوآن سے بات چیت کی اور تعمیری دوطرفہ تعلقات کے سلسلے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا، باہمی تعاون کو وسعت دینے اور اختلافات کو موثر انداز میں دور کرنے پر زور دیا۔"
ترکی کے صدارتی دفتر کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بائیڈن اور ایردوآن ”باہمی تعلقات کے اسٹریٹیجک کردار اور باہمی دلچسپی کے امور پر زیادہ وسیع تر تعاون کو مستحکم کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی اہمیت پر متفق تھے۔"
بائیڈن کے جنوری میں عہدہ صدارت سنبھالنے کے تین ماہ کے انتظار کے بعد ترک صدر کے ساتھ بات چیت پر انقرہ میں تشویش ظاہر کی جارہی ہے۔
وائٹ ہاوس کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق دونوں صدور جون میں ہونے والے نیٹو سربراہی کانفرنس کے دوران ملاقات کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ اس موقع پر دونوں رہنما باہمی تعلقات کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کریں گے۔
ج ا/ ک م (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
مشہور ڈرامہ سیریل ’ارطغرل غازی‘ کے دیس میں
پاکستان میں آج کل ہر سو ترک ڈرامه سیریل ارطغرل غازی کا ڈنکا بج رہا ہے۔ اردو ڈبنگ کے ساتھ نشر کیے جانے والا یہ تاریخی ڈرامہ پانچ سیزن پر مشتمل ہے۔ اس ڈرامے کا مرکزی کردار قبائلی سردار ارطغرل غازی ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
ارطغرل غازی کا مقبرہ
ترکی کے شہر استبنول سے تقریبا تین گھنٹے کی مسافت پر بیلیچک صوبے میں سوعوت کا قصبه واقع ہے۔ مقامی پہاڑی سلسلے کے خم دار اور پرپیچ راستوں پر واقع یہ چھوٹا سا قصبہ اپنے دامن میں صدیوں کی تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ اس کی ایک نشانی یہاں قائم سلطنت عثمانیہ کی داغ بیل ڈالنے والے کائی قبیلے کے سردار ارطغرل غازی (1188-1281) کا مقبرہ ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
ڈرامه سیریل ارطغرل غازی
ڈرامه سیریل ارطغرل غازی کا مرکزی خیال سلطنت عثمانیہ کے قیام میں سے قبل بارهویں اور تیرھویں صدی عیسوی کے ان حالات پر مبنی ہے جو آگے چل کر سلطنت عثمانیہ کے قیام کا سبب بنے۔
تصویر: DW/S. Raheem
ارطغرل کا احیا
چودہ ہزر نفوس پر مشتمل پر یہ قصبہ تقریبا دو سال قبل تک تقریباﹰ گمنامی کا شکار تھا اور شاذونادر ہی کسی سیاح کی اس طرف آمد ہوتی تھی۔ لیکن پھرپانچ سال قبل ترکی کے سرکاری ٹی وی ٹی آرٹی کی پیشکش ڈرامہ سیریل ’’ارطغرل کا احیا‘‘ نے اس قصبے کو گمنامی سے نکال کر ایک مرتبہ پھر دنیا کی نظروں میں لا کھڑا کیا ہے
تصویر: DW/S. Raheem
روایتی لباس میں حفاظت
مقبرے کے باہر مقامی کائی قبیلے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی چاق و چوبند ٹولیاں اپنے صدیوں پرانے روایتی لباس میں ملبوس اور ہتھیاروں سے لیس ہو کر حفاظتی ڈیوٹیاں سر انجام دیتی ہیں۔ انہیں دیکھنے والے ایک لمحے کے لیے وقت کی قید سے آزاد ہو کر خود کو آٹھ صدیوں قبل کے ماحول میں پاتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
خاک بھی موجود
ارطغرل کی قبر کے پہلو میں سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر رہنے والے تمام ممالک سے لائی گئی خاک کو بڑی ترتیب کے ساتھ چھوٹی چھوٹی ڈبیاوں میں سجا کر رکھا گیا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
پرچم بھی نصب
اس کے علاوہ اس مزار میں ان ممالک کے پرچم بھی ایستادہ کیے گئے ہیں، جن میں ترک زبان بولنے والے ایک بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
پاکستانی سیاح
مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار کے مطابق مشرق وسطی، افریقہ اور ایشیائی ممالک خصوصاﹰ پاکستان سے سیاح گزشتہ دو سالوں سے تواتر کے ساتھ سوعوت کے قصبے کا رخ کر رہے ہیں۔ ان کے لیے یہاں سبب سے بڑی کشش بلاشبہ ارطغرل غازی کا مقبرہ ہے۔ یہ سن 1886 تک ایک عام قبر کی طرح ہی تھا لیکن پھر اسے عثمانی سلطان عبدالحمید دوئم نے ایک مقبرے کی شکل دی۔
تصویر: DW/S. Raheem
مقامی انداز میں تصاویر
یہ منظر بھی یہاں آئے سیاحوں کی اس مقام سے جڑی توقعات پوری کرنے میں بھر پور مدد کرتا ہے۔ ان کے اندر شوقین افراد کے لئے مقامی انداز میں ڈھل کر فوٹو کھچوانے کی سہولت بھی مہیا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
ارطغرل سب سے بڑی وجہ
یہاں آنے والے سیاحوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ ان کے سوعوت سے تعارف کی وجہ ڈرامہ سیریل ارطغرل کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ارطغرل کے عکس بندی اور خصوصاﹰ اس میں دکھائے گئے کائی قبیلے کی بودوباش اور رہن سہن کے طریقوں سے اتنے محصور ہوئے کہ انہوں نے سوعوت آنے کی ٹھان لی۔
تصویر: DW/S. Raheem
خیمے توجہ کا مرکز
یہاں کاروبار کرنے والوں نے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے کائی قبیلے کے زیر استعمال صدیوں پرانے خیموں کو بھی ایک مرتبہ پھر آباد کر رکھا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
کورونا کا سیاحت پر اثر
مقامی منتظمین کا کہنا ہے کہ دو سال قبل یہاں آنے والے سیاحوں کی ماہانہ تعداد چار سے پانچ سو کے درمیان تھی تاہم کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے قبل یہ تعداد بڑھ کر چار ہزار ماہانہ تک جا پہنچی تھی۔ تاہم اب جہاں کورونا وائرس نے دنیا بھر میں سیاحت کی صنعت کو متاثر کیا ہے وہیں ترکی میں بھی اس صنعت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
یادگاری اشیا
اس قصبے میں اب یادگاری اشیا کی دوکانیں یا سوئینیر شاپس بھی تیزی سے اپنا کاروبار جما رہی ہیں۔ ان دوکانوں پر آپ کو چمڑے سے تیار کیے گئے کائی قبیلے کے روایتی لباس، روزمرہ استعمال کی دیگر اشیا کے ساتھ ساتھ ہتھیار اور خواتین کے پہناوے اور جیولری کا سامان دستیاب ہوتا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
کائی قبیلے کا پرچم
دو تیروں اور ایک کمان پر مشتمل کائی قبیلے کا پرچم آپ کو یہاں جگہ جگہ لہراتا نظر آتا ہے۔ اکثر یادگاری اشیا جیسے کہ مختلف قسم کی ٹوپیوں، ٹی شرٹس اور کی چین وغیرہ پر بھی آپ کو یہ نشان بنا ہوا ضرور نظر آئے گا۔
تصویر: DW/S. Raheem
اہلیہ بھی احاطے میں دفن
ارطغرل کے مزار کے احاطے میں ان کی اہلیہ حلیمہ خاتون، دوسرے بیٹے سیوجی بے کے علاوہ چودہ دیگر قریبی رفقا کا کی قبریں بھی ہیں۔ ان کی اہلیہ حلیمہ خاتون کو ارطغرل ڈرامے میں ایک موثر کردار میں پیش کیا گیا ہے، جو ہر مشکل اور فیصلہ کن گھڑی میں اپنے خاوند کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔