1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جو بائیڈن اور محمد بن سلمان کی ملاقات: کیا باتیں ہوئیں؟

16 جولائی 2022

امریکی صدر نے ماضی میں محمد بن سلمان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ سے متعلق سخت الفاظ استعمال کیے۔ تاہم یہ سب اس دور سے پہلے کی باتیں ہیں، جب روس نے یوکرین پر نہ تو حملہ کیا تھا اور نہ ہی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا۔

Saudi Arabien US-Präsident Biden und MSB
تصویر: BANDAR ALGALOUD/REUTERS

جمعے کے روز جب سعودی عرب کے دارالحکومت جدہ میں سعودی فرمانروا  محمد بن سلمان نے امریکی صدر جو بائیڈن کا استقبال کیا تو، صدر نے کہا کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا موضوع ان کی، ’’ملاقات کے ایجنڈے میں سر فہرست‘‘ ہے۔ 

اس کے بعد جو بائیڈن نے اپنے ایک اور بیان میں کہا، ’’جمال خاشقجی کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ اشتعال انگیز تھا۔ میں نے تو یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر دوبارہ ایسا کچھ ہوتا ہے تو انہیں نہ صرف اس کا جواب ملے گا، بلکہ اور بھی بہت کچھ ہو گا۔‘‘

جدہ کے کنگ عبدالعزیز بین الاقوامی ہوائی اڈے پر قدر کم اہم استقبال کے بعد، محمد بن سلمان نے سعودی شاہی محل میں جو بائیڈن کا نہایت گرمجوشی اور دوستانہ ماحول میں خیر مقدم کیا اور یہ تمام مناظر سعودی عرب کے قومی ٹیلی ویژن پر نشر کیے گئے۔ بعد میں سعودی میڈیا پر بائیڈن کو شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا۔

امریکی صدر اور سعودی ولی عہد نے اپنی تین گھنٹے کی ملاقات کے دوران بحیرہ احمر سے لیکر ایران تک علاقائی سلامتی کے اہم امور پر تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ ہی مستقبل میں فائیو جی اور سکس جی جیسی موبائل ٹیکنالوجی کے تعاون پر بھی بات چیت کی۔

خاشقجی پر واشنگٹن اور ریاض کے درمیان کشیدگی

امریکی صدر جو بائیڈن دو دن اسرائیل میں رہنے کے بعد سعودی عرب پہنچے تھے۔ ان کے اس دورے کا مقصد سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو’’دوبارہ ترتیب دینے‘‘ کی ایک کوشش تھی، جو خطے میں امریکہ کے سب سے پرانے اتحادیوں میں سے ایک ہے۔

تصویر: Bandar Algaloud/Courtesy of Saudi Royal Court/Handout/REUTERS

بائیڈن اور سعودی عرب کے حقیقی حکمراں محمد بن سلمان کے مابین گفتگو کے دوران تناؤ اس وقت دیکھنے میں آیا، جب انہوں نے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے حوالے سے سعودی عرب کو ایک ’’پاریہ اسٹیٹ‘‘ قرار دیا ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کے پاس ’’معاشرتی اقدار کے طور پر تبادلے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘‘

بہت سی قیاس آرائیوں کے بعد بائیڈن نے اپنی ملاقات کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے جمال خاشقجی کے قتل کے موضوع پر بھی بات چیت کی ہے۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی امریکہ میں رہتے ہوئے معروف میڈیا ادارے واشنگٹن پوسٹ کے لیے کام کرتے تھے۔

انہوں نے سعودی عرب میں بعض پالیسیوں کے حوالے سے محمد بن سلمان پر بھی نکتہ چینی کی تھی اور سن 2018 میں استنبول میں سعودی سفارت خانے کے اندر انہیں قتل کر دیا گیا تھا۔

جدہ میں نامہ نگاروں سے بات چیت میں بائیڈن نے بتایا کہ ’’انہوں نے بنیادی طور پر یہ اشارہ دیا کہ انہیں یہ لگتا ہے کہ وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا،’’میں نے اس پر کھل کر بغیر کسی جھجک کے بات کی۔ میں نے اپنا نقطہ نظر پوری طرح سے واضح کر دیا۔‘‘

خاشقجی کی منگیتر کی بائیڈن کے دورے پر تنقید

جو بائیڈن خود کو انسانی حقوق کا ایک چیمپیئن گردانتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ہی گزشتہ برس امریکی انٹیلیجنس کی ان رپورٹس کو جاری کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ہی خاشقجی کے قتل کے فرمان پر دستخط کیے تھے۔ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید نقصان پہنچا تھا۔   

خاشقجی کی منگیتر خدیجے چنگیزی نے بائیڈن کی محمد بن سلمان سے ملاقات کے فیصلے کو ’’دل دہلا دینے والا اور مایوس کن‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اصولوں اور اقدار پر تیل ڈال کر بائیڈن اپنی اخلاقی اتھارٹی کھو دیں گے۔‘‘

انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ خاشقجی بائیڈن کو یہ بتائیں گے کہ محمد بن سلمان کے اگلے شکار کا خون بائیڈن کے ہی ہاتھوں پر ہو گا۔ تاہم بائیڈن نے اپنا دورہ شروع کرنے سے پہلے ایک بڑی تصویر دیکھنے پر زور دیا تھا۔

تصویر: BANDAR ALGALOUD/REUTERS

ان کا کہنا تھا،’’خاشقجی کے بارے میں میرے خیالات پوری طرح سے مثبت اور واضح رہے ہیں۔ میں انسانی حقوق کے بارے میں بات کرنے سے کبھی بھی خاموش نہیں رہا۔ تاہم میرے سعودی عرب جانے کی وجہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔‘‘

ایجنڈے میں ایران

ایک ایسا شعبہ جہاں دونوں رہنماؤں نے بتدریج پیش رفت کی، وہ علاقائی سلامتی کا ہے۔ ملاقات کے بعد سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی کی جانب سے جاری کیے گئے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیاکہ دونوں رہنماؤں نے ایران کو ’’جوہری ہتھیار حاصل کرنے‘‘سے باز رکھنے کی اہمیت پر اتفاق کیا ہے۔

سن 2015 میں ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو کم کرنے کے لیے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس کے تحت جہاں ایران نے جوہری ہتھیار بنانے اور یورینیم کی افزودگی کو کم کرنے کا وعدہ کیا تھا وہیں بدلے میں اس پر عائد پابندیوں کو نرم کرنا تھا۔ تاہم  سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ  2018 ء میں یکطرفہ طور پراس معاہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔

مشرق وسطیٰ میں تہران اور ریاض بالترتیب شیعہ اور سنی مسلم طاقتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دونوں ممالک نے سن 2016 میں یمن سے شام تک کئی پراکسی جنگوں کے حوالے سے ایک دوسرے سے تعلقات تک منقطع کر لیے تھے۔

مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ بائیڈن،’’سعودی عرب کی سلامتی، علاقائی دفاع، اور بیرونی خطرات کے خلاف اپنے عوام اور سرزمین کا دفاع کرنے کے لیے ضروری صلاحیتیں حاصل کرنے میں مملکت کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘‘

ص ز/ ک م (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

تیل کی پیداوار میں سعودی عرب اور امریکا مدِ مقابل

01:23

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں