بائیڈن کی عالمی رہنماؤں کو 'کلائمیٹ سمٹ‘ میں شرکت کی دعوت
27 مارچ 2021
روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ سمیت دنیا کے تقریباً چالیس رہنماؤں کو اپریل میں مجوزہ ماحولیاتی سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
اشتہار
امریکی صدر جو بائیڈن نے پوٹن اور شی جن پنگ کے متعلق کہا، ”انہیں معلوم ہے کہ میں نے انہیں مدعو کیا ہے۔ لیکن میری اب تک ان میں سے کسی سے براہ راست بات نہیں ہوئی ہے۔"
وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ سربراہی کانفرنس 22 اور 23 اپریل کو منعقد ہوگی۔ واشنگٹن کو امید ہے کہ اس اجلاس سے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی سے متعلق کاوشوں کو سِمت دینے اور ان میں تیزی پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔
بائیڈن نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو بھی اس سمٹ میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ جن دیگر اہم عالمی رہنماؤں کو اس سربراہی کانفرنس میں مدعو کیا گیا ہے ان میں سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز، برازیل کے صدر جیئر بولسونارو، بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن شامل ہیں۔
کورونا وائرس اور ممکنہ سات ماحولیاتی تبدیلیاں
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد لاک ڈاؤن کی صورت حال نے انسانی معاشرت پر اہم اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ وبا زمین کے ماحول پر بھی انمٹ نقوش ثبت کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/I. Aditya
ہوا کی کوالٹی بہتر ہو گئی
دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلنے سے صنعتی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔ کارخانوں کی چمنیوں سے ماحول کو آلودہ کرنے والے دھوئیں کے اخراج میں وقفہ پیدا ہو چکا ہے۔ نائٹروجن آکسائیڈ کا اخراج بھی کم ہو چکا ہے۔ اس باعث ہوا کی کوالٹی بہت بہتر ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/I. Aditya
کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم
کووِڈ انیس کی وبا نے اقتصادی معمولات میں بندش پیدا کر رکھی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بھی شدید کمی واقع ہو چکی ہے۔ صرف چین میں اس گیس کے اخراج میں پچیس فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی عارضی ہے۔
وائرس کی وبا نے انسانوں کو گھروں میں محدود کر رکھا ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں شہروں کے قریب رہنے والی جنگلی حیات کے مزے ہو گئے ہیں۔ سڑکوں کے کنارے اور پارکس میں مختلف قسم کے پرندے اور زمین کے اندر رہنے جانور اطمینان کے ساتھ پھرتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/R. Bernhardt
جنگلی حیات کی تجارت کا معاملہ
ماحول پسندوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ کووِڈ انیس کی وبا کے پھیلنے سے جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لیے اقوام سنجیدگی دکھائیں گے۔ قوی امکان ہے کہ کورونا وائرس کی وبا چینی شہر ووہان سے کسے جنگلی جانور کی فروخت سے پھیلی تھی۔ ایسی تجارت کرنے والوں کے خلاف اجتماعی کریک ڈاؤن بہت مثبت ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lalit
آبی گزر گاہیں بھی شفاف ہو گئیں
اٹلی میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد کیے گئے لاک ڈاؤن کے چند روز بعد ہی وینس کی آبی گزرگاہیں صاف دکھائی دینے لگی ہیں۔ ان شہری نہروں میں صاف نیلے پانی کو دیکھنا مقامی لوگوں کا خواب بن گیا تھا جو اس وبا نے پورا کر دیا۔ اسی طرح پہاڑی ندیاں بھی صاف پانی کی گزرگاہیں بن چکی ہیں۔
تصویر: Reuterts/M. Silvestri
پلاسٹک کے استعمال میں اضافہ
کورونا وائرس کی وبا کا ماحول پر جو شدید منفی اثر مرتب ہوا ہے وہ ڈسپوزایبل پلاسٹک یعنی صرف ایک بار استعمال کی جانے والی پلاسٹک کی اشیاء کے استعمال میں اضافہ ہے۔ کلینیکس اور ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے پلاسٹک کے ڈسپوزایبل دستانے اب شاپنگ مارکیٹوں میں بھی استعمال ہونے لگے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P.Pleul
ماحولیاتی بحران نظرانداز
کووِڈ انیس کی وبا کے تیزی سے پھیلنے پر حکومتوں نے ہنگامی حالات کے پیش نظر ماحولیاتی آلودگی کے بحران کو پسِ پُشت ڈال دیا تھا۔ ماحول پسندوں نے واضح کیا ہے کہ وائرس کی وجہ سے ماحولیاتی مسائل کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں اور اہم فیصلوں کے نفاذ میں تاخیر بھی زمین کے مکینوں کے لیے نقصان دہ ہو گی۔ یہ امر اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی کلائمیٹ کانفرنس پہلے ہی اگلے برس تک ملتوی ہو چکی ہے۔
تصویر: DW/C. Bleiker
7 تصاویر1 | 7
اہداف کا تعین
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے ”اس سربراہی کانفرنس میں ایسی مثالوں کو اجاگر کیا جائے گا کہ ماحولیات کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ بہتر ملازمتوں کے مواقع کیسے پیدا کیے جاسکتے ہیں، جدید ترین اختراعی ٹیکنالوجی اور ماحولیات کے اثرات سے بچنے میں غریب ملکوں کی مدد کے طریقہ کار پر بھی غور و خوض کیا جائے گا۔"
اشتہار
امید ہے کہ اس موقع پر امریکا ”2030ء میں گیسوں کے اخراج کے ہدف‘‘ کے حوالے سے اپنے پرعزم پروگرام کابھی اعلان کرے گا۔
ماحولیات کا مسئلہ بائیڈن کی ٹیم کا ان کے انتخابی مہم کے آغازسے ہی ایک اہم ایجنڈا رہا ہے۔ انہوں نے توانائی کے شعبے کو سن 2035 تک اور پوری امریکی معیشت کو سن 2050 تک زہریلی گیسوں کے اخراج سے پاک بنانے کے عزم کا اظہارکیا تھا۔
عالمی ثقافتی ورثے پر منڈلاتے خطرات
ماحولیاتی تبدیلیوں نے عالمی ثقافتی ورثے مثلاً عمارتوں، قدیمی شہری فصیلوں اور پارکس و باغات پر شدید منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
تصویر: Rainer Hackenberg/picture alliance
ڈریسڈن
سن 2002 میں آنے والے سیلاب سے ڈریسڈن زیر آب آ گیا تھا۔ اس سیلابی پانی نے کئی قیمتی نوادرات کے لیے خطرات پیدا کر دیے تھے۔ باروک طرز تعمیر کے سونگر محل میں بھی پانی داخل ہو گیا تھا۔ اب شہری انتظامیہ نے ایک ٹاسک فورس بنائی ہے تا کہ مستقبل میں ایسی سنگین موسمی صورت حال کا مقابلہ کیا جا سکے۔
تصویر: Matthias Hiekel dpa/lsn/picture alliance
وینس
جزیرے پر تعمیر شدہ اس شہر کو پانی کے اثرات کے خلاف جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سن 2019 میں اس شہر کو ایک قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا اور کئی تاریخی محلات اور گرجا گھروں میں پانی داخل ہو گیا تھا۔ وینس کو مسلسل سیلابی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Annette Reuther/dpa/picture alliance
قلعہ موریٹس بُرگ
ماضی میں موسمی مرطوبیت(نمی) ثقافتی سرمائے کے لیے خاص طور پر نقصان دہ تھی۔ اب مسلسل خشک ہوتی ہوا منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ جرمن صوبے سیکسنی کے قلعے موریٹس بُرگ میں باروک دور کے آرائشی لیدر وال پیپرز کے ذخیرے کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ان پر پیدا ہونے والی دراڑیں موسمی تبدیلی کے ثبوت ہیں۔
تاریخی اطالوی شہر گُوبیو کے گردا گرد تعمیر شدہ دیوار کو ہوائی نمی اور بنیادوں میں تبدیلی پیدا ہونے سے شدید خطرات کا سامنا ہے۔ حالیہ موسلا دھار بارش سے دیوار کا کچھ حصہ منہدم ہو گیا۔ اس دیوار کی مجموعی مضبوطی جانچنے کے لیے ایک یورپی ریسرچ ٹیم جائزہ لینے میں مصروف ہے۔
تصویر: NielsDK/ imageBROKER/picture alliance
کولس قلعہ، کریٹ
بڑے یونانی جزیرے کریٹ کی مرکزی بندرگاہ پر کولس قلعہ واقع ہے۔ یہ سولہویں صدی کی تعمیر ہے۔ قلعہ کئی صدیوں سے موسمی تغیر برداشت کر رہا ہے لیکن حالیہ ماحولیاتی تبدیلیوں نے ہوا کا رخ تبدیل کر دیا اور پھر سمندری لہروں نے بھی نیا راستہ اپنا لیا۔ اس تبدیلی سے نمکین سمندری پانی قلعے کی دیواروں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
تصویر: Rainer Hackenberg/picture alliance
اسٹون ہینج
یونیسکو کی عالمی ورثے میں شامل چار ہزار سال قدیمی اسٹون ہینج کو بھی ماحولیاتی تبدیلیاں متاثر کر رہی ہیں۔ چھچھوندروں نے زیر زمین ہلچل پیدا کر کے اس علاقے کو نرم کر دیا ہے۔ ہلکی سردیوں میں چھچھوندروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اور گرمی بڑھنے سے زمینی نمی بڑھتی ہے تو کینچووں کی بہتات ہو جاتی ہے اور یہ چھچھوندر کی پسندیدہ خوراک ہے۔
تصویر: Andrew Matthews/PA/picture alliance
خطرے کا شکار مرکزِ شہر
شمالی جرمن شہر وسمار کا مرکز اپنی ڈھلکی ہوئی تکونی چھتوں والی عمارتوں اور واٹر ورکس کی وجہ سے ایک خاص شہرت رکھتا ہے۔ سمندری سطح بلند ہونے سے وسمار کے علاوہ لُوبیک اور اشٹرالزونڈ شہروں کو بھی یکساں خطرات کا سامنا ہے۔ اسی طرح اطالوی شہر نیپلز، بیلجین شہر بروگے اور ترک شہر استنبول بھی خطرے کی زد میں ہیں۔
تصویر: Jens Büttner/ZB/picture alliance
تاریخی پارکس اور باغات
ماحولیاتی تبدیلیوں نے عمارتوں اور نوادرات کے ساتھ ساتھ پارکس اور باغات کے لیے بھی خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ جرمن شہر پوٹسڈام میں واقع ’ساں سُوسی‘ محل کے ارد گرد کے پارک اور باغیچوں کو بھی موسمی تبدیلی کی شدت کا سامنا ہے۔ پوٹسڈام جرمن دارالحکومت کا نواحی شہر ہے۔
تصویر: Britta Pedersen/dpa/picture alliance
8 تصاویر1 | 8
پیرس ماحولیاتی معاہدے میں واپسی
امریکی صدر نے پیرس ماحولیاتی معاہدے میں دوبارہ واپسی کا عہد بھی کیا ہے جس سے ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو الگ کرلیا تھا۔
مجوزہ ماحولیاتی سربراہی کانفرنس یوم ارض کے موقع پر 22 اپریل کو شروع ہوگی۔ یہ کانفرنس اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں آئندہ نومبر میں اقو ام متحدہ کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلی پر ہونے والی میٹنگ سے قبل ہورہی ہے۔
واشنگٹن میں ہونے والی یہ کانفرنس کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے آن لائن منعقد کی جائے گی اور اسے عوام کے لیے براہ راست نشر کیا جائے گا۔
بائیڈن انتظامیہ کو امید ہے کہ اس فورم سے عالمی لیڈروں کو موقع ملے گا کہ وہ اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے ممالک کی جانب سے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی سے متعلق سخت اہداف مقرر کرنے کا اعلان کریں گے۔
جن سربراہوں کو مدعوکیا گیا ہے ان میں سترہ ایسے ممالک شامل ہیں جو عالمی سطح پر زہریلی گیسوں کے 80 فیصد اخراج کے لیے ذمہ دار ہیں۔
فی الحال یہ واضح نہیں کہ جن ممالک کو دعوت دی گئی ہے وہ کیا جواب دیں گے، اور کیا وہ امریکا کے ساتھ دیگر امور پر جاری تنازعات کے درمیان زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی پر تعاون کریں گے یا نہیں۔ چین اس وقت زہریلی گیسوں کے اخراج کی فہرست میں اول نمبر پر، جب کہ امریکا دوسرے اور روس چوتھے نمبر پر ہے۔
بائیڈن انتظامیہ نے سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری کوماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنا خصوصی سفیر مقرر کیا ہے اور وہ ماحولیاتی تبدیلی کے سلسلے میں یورپی یونین کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں کوشش کررہے ہیں۔
ج ا/ ع آ (ڈی پی اے، اے ایف پی، اے پی)
پاکستان کو موسمیاتی تباہی سے بچانے کے لیے کوشاں پروفیسر