'بائیڈن کے ساتھ مزید کثیر جہتی تعاون کا خیرمقدم' میرکل
26 جنوری 2021
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ فون پر اپنی پہلی گفتگو میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون بہت اہم ہے۔
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان اشٹیفین زائبرٹ نے پیر 25 جنوری کو بتایا کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور امریکی صدر جو بائیڈن نے فون پر بات چیت کے دوران اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ کورونا وائرس جیسی عالمی وبا اور دیگر بین الاقوامی چیلنجز کا اسی صورت میں مقابلہ کیا جا سکتا ہے جب تمام ممالک ایک ساتھ مل کر کام کریں۔
جو بائیڈن کے گزشتہ ہفتے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان فون پر یہ پہلی بات چیت تھی۔ اس موقع پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے اور عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او میں امریکا کی دوبارہ واپسی کے فیصلے کا بھی خیر مقدم کیا۔
جرمن چانسلر کے ترجمان اشٹیفین زائبرٹ نے کہا، ''چانسلر اور امریکی صدر نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ کورونا وائرس جیسی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے مضبوط ترین بین الاقوامی کوششوں کی ضرورت ہے۔'' ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے افغانستان اور ایران جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے خارجہ پالیسی نیز تجارتی امور اور ماحولیات کی تبدیلی جیسے اہم مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
ترجمان اشٹیفین زائبرٹ کا کہنا تھا کہ چانسلر انگیلا میرکل نے، ''جرمنی کی طرف سے اپنے یورپی اور بحر اوقیانوسی شراکت داروں کے ساتھ مل کر بین الاقوامی امور سے نمٹنے میں ذمہ داری قبول کرنے کی رضامندی کا بھی اظہار کیا۔''
جرمن چانسلر نے بائیڈن کو امریکا کا صدر بننے پر مبارک باد پیش کی اور جیسے ہی کورونا کی وبا انہیں سفر کی اجازت دے، جرمنی آنے کی بھی دعوت دی۔
جرمنی میں امریکی فوج کی تاریخ
امریکی فوج تقریباﹰ 75 سالوں سے جرمنی میں موجود ہے۔ یہ فوج دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں فاتح کے طور پر داخل ہوئی اور کچھ عرصے میں ہی جرمنی کی اتحادی بن گئی۔ لیکن یہ باہمی تعلق ہمیشہ ہموار نہیں رہا ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May
رمشٹائن ملٹری ائیربیس کا اہم دورہ
جرمنی میں تقریباﹰ 35 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جن کی اکثریت ملک کے مغرب اور جنوب میں ہے۔ لیکن اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس 75 سالہ پرانے تعلق میں تبدیلیاں لانے کے خواہشمند ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جرمنی سے بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کی واپسی کا یہ عمل امریکا اور جرمنی کے مابین فوجی اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
سوویت یونین کا کردار
جرمنی میں امریکی فوج دوسری جنگ عظیم کے بعد آنا شروع ہوئی تھی۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے جرمنی کو نازیوں سے آزاد کروایا تھا۔ تاہم اس وقت اس کا اتحادی ملک سوویت یونین جلد ہی دشمن بن گیا تھا۔ اس تصویر میں تقسیم شدہ برلن میں امریکی فوج اورسابقہ سوویت یونین کے ٹینک ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایلوس پریسلے
امریکی فوجیوں نے جرمنی کو امریکی ثقافت سے بھی روشناس کروایا۔ کنگ آف ’روک ن رول‘ ایلوس پریسلے نے ایک امریکی فوجی کے طور پر سن 1958 میں جرمنی میں اپنی فوجی خدمات کا آغاز کیا تھا۔ اس تصویر میں پریسلے یہ اپنے مداحوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Heidtmann
جرمنی اب اپنا گھر
پچھلے کچھ برسوں سے امریکی فوج جرمن سر زمین پر مستقل قیام کیے ہوئے ہے۔ امریکی اڈوں کے گردونواح میں امریکی فوج اور ان کے خاندانوں کے لیے کئی رہائشی مقامات تعمیر کیے گئے ہیں۔ الگ تھلگ رہائش کا یہ نظام امریکی فوجیوں کا جرمنی میں مکمل انضمام میں دشواری کا سبب بھی بنتا ہے۔ سن 2019 میں امریکی فوج نے 17،000 امریکی سویلین شہریوں کو جرمنی میں ملازمت پر رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
امریکا اور جرمن خاندانوں کا تعلق
الگ رہائشی علاقوں کے باوجود، جرمن اور امریکی خاندانوں میں رابطہ رہا ہے۔ فوج کی تعیناتی کے ابتدائی برسوں میں برلن میں موسم گرما اور سرما میں پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ امریکی فوج مقامی بچوں کے لیے کرسمس پارٹی کا اہتمام بھی کرتی تھی اور ہر سال جرمنی اور امریکا دوستی کے ہفتہ وار جشن منائے جاتے تھے۔
سرد جنگ کے دوران وفاقی جمہوریہ جرمنی ایک اہم اسٹریٹیجک مقام بن گیا تھا۔ سن 1969 میں نیٹو ’مینوور ریفورجر ون‘ امریکی اور جرمن فوج کے زیر اہتمام بہت سی مشترکہ جنگی مشقون میں سے ایک تھی۔ اس میں دشمن سوویت یونین اور مشرقی جرمنی سمیت وارسا معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک تھے۔
تصویر: picture-alliance/K. Schnörrer
جوہری میزائل پر تنازعہ
سن 1983 میں متلانگن میں امریکی اڈے پر پریشنگ 2 راکٹ لائے گئے تھے۔ جوہری وار ہیڈس سے لیس شدہ یہ راکٹس ایک سیاسی مسئلہ بن گئے تھے۔ امن کے خواہاں سرگرم کارکنان ان میزائلوں کے خلاف تھے۔ ان کے احتجاجی مظاہروں میں مشہور شخصیات بھی شریک ہوتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راستے جدا
تقریباﹰ20 سال بعد یعنی 2003ء میں امریکی صدر جارج بش نےعراق کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ جنگ کی وجہ عراق کا وہ مبینہ پروگرام تھا، جس کے تحت وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہے تھے۔ اس دور کے جرمن چانسلر گیرہارڈ شروڈر نے جرمنی کو اس جنگ سے دور رکھا۔ اور برلن اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpa_pool/A. Altwein
جرمنی پھر بھی اہم
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی سے اپنے بارہزار فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے پر قائم رہتے بھی ہیں تو بھی جرمنی امریکا کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک ملک رہے گا۔ رمشٹائن کا اڈہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپ میں امریکی فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ یہاں سے ہی متنازعہ ڈرون مشنز افریقہ اور ایشیا میں پرواز کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
9 تصاویر1 | 9
اختلافات دور کرنے کا عزم
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور اقتدار میں ''امریکا پہلے'' کی جو پالیسی اختیار کی تھی اس سے امریکا اور یورپ کے بعض ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات متاثر ہوئے۔ ٹرمپ تجارتی امور اور نیٹو کے تعلق سے فوجی سطح پر بھی یورپ پر یہ کہہ کر بار بار نکتہ چینی کرتے رہے تھے کہ یورپ امریکی معیشت کو نقصان پہنچا کر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جرمنی سے تقریباً نو ہزار امریکی فوجیوں کے انخلاء کا بھی حکم دیا تھا۔
اشتہار
گزشتہ ہفتے جرمن چانسلر نے کہا تھا کہ اب جبکہ ٹرمپ کی جگہ امریکا کے صدر بائیڈن ہیں اس لیے جرمنی اور امریکا کی پالیسیوں میں زیادہ یکسانیت ہے۔ انہوں نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں کہا تھا کہ جب سے بائیڈن نے امریکی اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی ہے اس وقت سے ان کے رویے سے لگتا ہے کہ وہ جرمنی کے قریبی اتحادی ہیں۔ ''صدر بائیڈن کے ساتھ سیاسی اتفاق رائے کی وسیع ترین گنجائش موجود ہے۔''
جرمن چانسلر ایسی تیسری عالمی رہنما ہیں جن سے بائیڈن نے فون پر مختلف امور سے متعلق بات چیت کی ہے۔ عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد بائیڈن نے سب سے پہلے سنیچر کو برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن سے اور اتوار کو فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں سے بات چیت کی تھی۔
اس حوالے سے پیر کے روز جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس سے جب صحافیوں نے یہ سوال پوچھا کہ یورپ میں جرمنی کو ایک اہم مقام حاصل ہے اس کے باوجود امریکا نے بات چیت کے لیے برطانیہ اور فرانس کو فوقیت دی اور جرمنی کو تیسرے نمبر پر فون کیا، تو کیا یہ امریکا اور جرمنی کے درمیان تعلقات کے لیے برا شگن ہے؟
اس پر جرمن وزیر خارجہ نے کہا، ''آپ ایسا دیکھ سکتے ہیں، تاہم آپ کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے خیال سے مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ان امور سے سروکار ہے جو ہمارے لیے اہم ہیں۔ ہمیں اس بات پر بہت اعتماد ہے کہ ہمیں بڑے مواقع کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔''
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)
ڈونلڈ ٹرمپ کے جرمنی کے بارے میں بیانات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کی تعریف بھی کر چکے ہیں اور جرمنی پر تنقید بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے چانسلر میرکل کو ’عظیم‘ بھی کہا ہے اور ان کا یہ دعوی بھی ہے کہ برلن حکومت امریکا کی ’مقروض‘ ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. May
کبھی ایسا تو کبھی ویسا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015ء میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مہاجرین کے لیے سرحدیں کھولنے کے فیصلے کو ایک بہت بڑی غلطی سے تعبیر کیا تھا۔ وہ جرمنی کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں اور کبھی ان حق میں بیان بھی دیتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. May
’عظیم‘
ٹرمپ نے 2015ء میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جرمنی خاموشی سے رقم جمع کرنے اور دنیا کی ایک عظیم رہنما میرکل کے سائے میں قسمت بنانے میں لگا ہوا ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/M. Schreiber
بہت برا
’’جرمن برے ہوتے ہیں، بہت ہی برے۔ دیکھو یہ امریکا میں لاکھوں گاڑیاں فروخت کرتے ہیں۔ افسوس ناک۔ ہم اس سلسلے کو ختم کریں گے۔‘‘ جرمن جریدے ڈیئر شپیگل کے مطابق ٹرمپ نے یہ بیان مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ایک سربراہ اجلاس کے دوران دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/E. Vucci
کچھ مشترک بھی
ٹرمپ نے مارچ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا، ’’ ٹیلفون سننے کی بات ہے، تو میرے خیال میں جہاں تک اوباما انتظامیہ کا تعلق تو یہ چیز ہم میں مشترک ہے۔‘‘ ان کی اشارہ ان الزامات کی جانب تھا، جو وہ ٹیلیفون سننے کے حوالے سے اوباما انتظامیہ پر عائد کرتے رہے ہیں۔ 2013ء میں قومی سلامتی کے امریکی ادارے کی جانب سے میرکل کے ٹیلیفون گفتگو سننے کے واقعات سامنے آنے کے بعد جرمنی بھر میں شدید و غصہ پایا گیا تھا۔
تصویر: Picture alliance/R. Sachs/CNP
غیر قانونی
’’میرے خیال میں انہوں نے ان تمام غیر قانونی افراد کو پناہ دے کر ایک بہت بڑی غلطی کی ہے۔ ان تمام افراد کو، جن کا تعلق جہاں کہیں سے بھی ہے‘‘۔ ٹرمپ نے یہ بات ایک جرمن اور ایک برطانوی اخبار کو مشترکہ طور پر دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
’مقروض‘ جرمنی
ٹرمپ نے 2017ء میں میرکل سے پہلی مرتبہ ملنے کے بعد کہا تھا، ’’جعلی خبروں سے متعلق آپ نے جو سنا ہے اس سے قطع نظر میری چانسلر انگیلا میرکل سے بہت اچھی ملاقات ہوئی ہے۔ جرمنی کو بڑی رقوم نیٹو کو ادا کرنی ہیں اور طاقت ور اور مہنگا دفاع مہیا کرنے پر برلن حکومت کی جانب سے امریکا کو مزید پیسے ادا کرنے چاہیں۔‘‘
تصویر: Picture alliance/dpa/L. Mirgeler
منہ موڑنا
امریکی صدر نے جرمن حکومت کے داخلی تناؤ کے دوران اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا، ’’جرمن عوام تارکین وطن کے بحران کے تناظر میں، جس نے مخلوط حکومت کو مشکلات کا شکار کیا ہوا ہے، اپنی قیادت کے خلاف ہوتے جا رہے ہیں۔ جرمنی میں جرائم کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ لاکھوں افراد کو داخل کر کے یورپی سطح پر بہت بڑی غلطی کی گئی ہے، جس سے یورپی ثقافت پر بہت تیزی سے تبدیل ہو گئی ہے۔‘‘