بابری مسجد انہدام کیس فیصلہ: ملزمان کی فتح یا انصاف کا خون
30 ستمبر 2020لکھنؤ میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج ایس کے یادو نے بابری مسجد انہدام کیس میں سابق نائب وزیراعظم لال کرشن اڈوانی سمیت تمام 32 ملزمان کو بری کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ نے ملزمین کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا۔
دو ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں جج نے کہا کہ بابری مسجد کا انہدام منصوبہ بند نہیں تھا۔ یہ سب کچھ اچانک ہوا اور سماج دشمن عناصر نے مسجد کو منہدم کردیا جبکہ ملزم رہنماوں نے ان لوگوں کو ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔
مسجد ہم نے توڑی تھی
عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ ''سی بی آئی کے ذریعہ پیش کردہ آڈیو اور ویڈیو ٹیپ کی معتبریت ثابت نہیں ہوسکی، تقریر کی آڈیو بھی پوری طرح صاف نہیں ہے۔"
اس کیس میں بری ہونے والے ایک ملزم جئے بھگوان گوئل نے عدالت کے باہرمیڈیا سے کہا”ہم نے مسجد توڑی تھی، عدالت اگر ہمیں مسجد توڑنے پر سزا بھی دیتی تو ہم اسے قبول کرتے اور ہمیں خوشی ہوتی۔ عدالت نے ہمیں سزا نہیں دی، یہ ہندو دھرم کی فتح ہے۔" اس موقع پر کچھ لوگوں نے جئے شری رام کے نعرے بھی لگائے۔
92 سالہ لال کرشن اڈوانی نے ایک بیان جاری کر کے کہا ”میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ نومبر 2019 میں سپریم کورٹ کے دیے گئے اس فیصلے کے مطابق آیا جس نے اجودھیا میں ایک عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کا راستہ یقینی بنایا اور جس کا سنگ بنیاد 5 اگست کو رکھا گیا تھا۔ اس فیصلے نے ان کی اور بی جے پی کی رام جنم بھومی تحریک کے حوالے سے ان کے اعتماد کو مزید مستحکم کیا ہے۔"
اس کیس میں بری ہونے والے ایک اور ملزم سابق مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی نے اسے تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ سب منصوبہ بند نہیں تھا۔ وزیر دفاع اور بی جے پی کے سابق صدر راج ناتھ سنگھ نے آج کے فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دیا۔
انصاف کا خون
سول سوسائٹی اور مسلم تنظیموں نے عدالت کے اس فیصلے کو بھارت کے کریمنل جسٹس سسٹم کی مکمل ناکامی اور انصاف کا خون قرار دیا۔
مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی بابری مسجد کمیٹی سے وابستہ ڈاکٹر سید قاسم رسول الیا س نے ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ انتہائی افسوس ناک اور انصاف کا خون ہے۔ انہوں نے کہا”لوگوں کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکا جاسکتا۔ آج بھی وہ لوگ زندہ ہیں جنہو ں نے اپنی آنکھوں کے سامنے بابری مسجد شہید ہوتے دیکھی ہے۔ وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے دیکھا کہ وہاں کیسے لاکھوں لوگ جمع کیے گئے اور پولیس کا کیا رول رہا۔"
قاسم رسول الیا س کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کے انہدام کے خاطرخواہ ثبوت موجود ہیں۔”عدالت کا یہ کہنا ناقابل فہم ہے کہ سی بی آئی نے خاطر خواہ ثبوت پیش نہیں کیے جب کہ سی بی آئی کے علاوہ بہت سے آزاد گواہوں، جن میں جائے واقعہ پر موجود صحافی بھی شامل ہیں، نے ویڈیوز کے فوٹیج پیش کیے تھے۔"
ڈاکٹر الیاس نے سوال کیا کہ اگرعدالت یہ کہہ رہی ہے کہ سی بی آئی نے جو ثبوت دیے ہیں وہ معتبر نہیں ہیں توسی بی آئی نے واضح تصویریں کیوں نہیں فراہم کیں۔ صاف آواز والے آڈیو کیوں نہیں پیش کیے؟ ”دراصل پچھلے چند برسوں سے حکومت سی بی آئی جیسی آزاد ایجنسی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے۔ اب حکومت ہی یہ طے کرتی ہے کہ سی بی آئی کو کس کے خلاف کارروائی کرنی ہے اور کسے چھوڑ دینا ہے۔"
عدالتی نظام کی شکست
اس سوال کے جواب میں کہ کیا بابری مسجد کی ملکیت اور اب بابری مسجد کے انہدام کیس میں عدالت کا فیصلہ مسلمانوں کی شکست ہے؟ ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کہتے ہیں ”یہ مسلمانوں کی نہیں بلکہ ملک کے عدالتی نظام کی شکست ہے۔ اگر سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں یہ مانتا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت مجرمانہ کارروائی اور غیرآئینی تھی اس کے باوجود اسی زمین کو ان لوگوں کو دے دیتا ہے جنہوں نے مسجد شہید کی تھی تو یہ کس بات کا مظہر ہے؟ یہ مسلمانوں کی نہیں بلکہ انصاف کی شکست ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے بابری مسجد کے انہدام کی انکوائری کے لیے لبراہن کمیشن مقرر کیا تھا۔ جس نے 17بر س کی جانچ کے بعد اپنی رپورٹ میں صاف طور پر بتایا کہ”بابری مسجد کی شہادت کی سازش کے لیے کون کون لوگ اور کون کون سی تنظیمیں اس کے لیے ذمہ دار ہیں۔" ڈاکٹر الیاس کا کہنا تھا ”دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کے ثبوت موجود ہیں کہ کون لوگ مسجد کو شہید کرنے والوں کو اکسا رہے تھے، ان کا حوصلہ بڑھارہے تھے، ’ایک دھکا اور دو مسجد کو توڑ دو‘ جسے نعرے لگارہے تھے۔“
جج بھی سبکدوش
اس کیس کی چارج شیٹ میں بی جے پی کے سینئر رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ سمیت 49 افراد کے نام شامل تھے۔ ان میں سے17 لوگوں کی وفات ہوچکی ہے بقیہ 32 لوگوں کو آج عدالت میں موجود رہنے کے لیے کہا گیا تھا۔ تاہم اڈوانی اور جوشی سمیت چھ لوگوں کو ان کی عمر اور علالت کا خیال رکھتے ہوئے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ گھر سے ہی عدالتی کارروائی میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔
بابری مسجد کے انہدام کے بعد 6 دسمبر 1992کو ہی دو ایف آئی آر درج کرائے گئے تھے۔ ایک ایف آئی آر میں نامعلوم افراد کے خلاف اور دوسرے میں آٹھ نامزد لوگوں کے خلاف معاملہ درج کیا گیا تھا۔ بعد میں 47 دیگر ملزمین کے نام شامل کیے گئے۔ سپریم کورٹ نے 2017 میں اس کیس کو دو سال کے اندر مکمل کرلینے کا حکم دیا تھا۔ اپریل 2019 میں یہ مدت ختم ہوگئی تو اس میں مزید نو ماہ کی توسیع کردی گئی۔ بعد میں کورونا کی وجہ سے فیصلے میں تاخیر ہوئی۔ جج ایس کے یادو اس اہم فیصلہ کو سنانے کے بعد اپنے عہدے سے سبکدوش ہوجائیں گے۔ انہیں ایک برس قبل 30ستمبر 2019کو ہی ریٹائر ہونا تھا لیکن سپریم کورٹ نے اس کیس کے لیے ان کی مدت کار میں توسیع کردی تھی۔