1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بابری مسجد تنازعہ کے حل کے لئے قائم کمیٹی تنازعہ کا شکار

جاوید اختر، نئی دہلی
8 مارچ 2019

بھارتی سپریم کورٹ نے ستر برس پرانے بابری مسجد اور رام مندر اراضی کے معاملے کے پرامن حل کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے آج آٹھ مارچ کو ثالثی کمیٹی مقرر کردی۔ تاہم یہ ثالثی کمیٹی بھی تنازعہ کا شکار ہوگئی۔

Indien Hindu-Nationalisten fordern den Bau eines Tempels
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

بھارتی سپریم کورٹ نے آج عدالت عظمیٰ کے سابق جج  فقیر محمد ابراہیم خلیف اللہ کی صدارت میں تین رکنی ثالثی کمیٹی کا اعلان کیا اور اس کمیٹی کو آئندہ آٹھ ہفتے کے اندر مصالحت کی کارروائی مکمل کرنے کا حکم دیا۔ کمیٹی کے دیگر اراکین میں سماجی کارکن اور ’آر ٹ آف لیونگ‘ کے بانی شری شری روی شنکر اور سینئر وکیل شر ی رام پانچو شامل ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بینچ نے یہ کہا کہ ’’ہمیں اس مسئلے کے حل کے لئے ثالثی کا راستہ اپنانے میں کوئی قانونی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔‘‘ آئینی بینچ نے یہ بھی واضح کیا کہ ثالثی کمیٹی میں حسبِ ضرورت مزید افراد کو شامل کیا جاسکتا ہے اور یہ کمیٹی قانونی مدد بھی لے سکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے تاہم یہ ہدایت دی کہ معاملے کی حساسیت کے مدِنظر بات چیت کا پورا عمل بند کمرے میں ہوگا اور اس کی میڈیا رپورٹنگ پر مکمل پابندی عائد رہے گی۔ خیال رہے کہ دو روز قبل سپریم کورٹ نے ثالثی کے معاملے پر سماعت مکمل کرنے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

تصویر: Getty Images/AFP/D .E. Curran


بابری مسجد تنازعہ کے اہم فریق آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی نے سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا۔ انہوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ’’ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ اگر مصالحت کی کوشش ہوتی ہے تو ہم اس میں تعاون کریں گے۔ لہٰذا اب جو بھی کہنا ہے وہ مصالحت کے لئے تشکیل شدہ پینل میں کہیں گے۔‘‘ اس معاملے کے ایک ہندو فریق نرموہی اکھاڑہ کے مہنت رام داس نے بھی فیصلے پر خوشی اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ ہم خوش ہیں کہ عدالت بھی اس مسئلے کاحل تلاش کرنا چاہتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مصالحت کا عمل آج سے ہی شروع ہوجائے۔‘‘

دوسری جانب بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما اور ممبر پارلیمان سبرامنیم کے خیال میں بھارت کے مسلمان شہریوں کے لئے یہ ثابت کرنے کا ایک نایاب موقع ہے کہ وہ دنیا کے دیگر حصوں میں رہنے والے مسلمانوں سے مختلف ہیں۔

شری شر ی روی شنکر کی ثالثی کمیٹی میں شمولیت پر اعتراض
ثالثی کمیٹی میں ’آرٹ آف لیونگ‘ کے بانی شری شر ی روی شنکر کی شمولیت پر متعدد حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی سامنے آئے ہیں۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اورممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کے مطابق بہتر ہوتا کہ کمیٹی میں غیر جانبدار افراد شامل کیے جاتے۔ ان کے بقول، ’’شری شری روی شنکر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر مسلمان ایودھیا میں اپنا دعویٰ نہیں چھوڑیں گے تو بھارت بھی شام بن جائے گا۔‘‘ اسد الدین اویسی نے مزید کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ روی شنکر اپنے ماضی کے بیانات سے خود کو الگ کرکے نئے سرے سے کام کریں گے۔

تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Adil


دہلی میں تاریخی جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری نے ثالثی کمیٹی سے روی شنکر کا نام خارج کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ روی شنکر بابری مسجد کی جگہ صرف رام مندر کی تعمیر چاہتے ہیں اور وہ مسلمانوں سے کہہ چکے ہیں کہ اپنی مسجد ایودھیا سے باہر تعمیر کریں۔

’مصالحت کے لئے موزوں وقت نہیں‘

ثالثی کمیٹی کی تشکیل پر سماجی تجزیہ کار اور دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر اپوروا نند نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مصالحت بہت ہی اچھی چیز ہے، مصالحت ہونی چاہیے لیکن  اس کے لیے ابھی ماحول مناسب نہیں۔ ان کے مطابق اگلے چند ہفتوں کے دوران ملک میں عا م انتخابات کی سرگرمیاں عروج پر رہیں گی اور اس سے قبل قومی سلامتی کا شور بھی بلند کیا جا چکا ہے۔ اپوروا نند کے بقول، اسی تناظر میں ملک میں مسلمانوں پر زبردست دباؤ ہے اور ایسے حالات میں آرام سے مصالحت کی بات ہونا ہی مشتبہ ہے۔

تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain


تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابی ماحول میں مصالحت کی اس کوشش کا مکمل فائدہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہوگا، جو دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر فیصلہ ہندوؤں کے حق میں گیا تو ’بی جے پی‘ یہ دعویٰ کرے گی کہ اس نے اپنا ایک اہم انتخابی وعدہ اور ہندو شہریوں کا دیرینہ مطالبہ پورا کردیا۔ بی جے پی کی مخالف سیاسی جماعتوں کے لئے اس کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہوگا۔
خیال رہے کہ ایودھیا میں تقریباﹰ پانچ سو برس پرانی بابری مسجد کو چھ دسمبر 1992ء کو ہندو انتہاپسندوں کے ایک ہجوم نے منہدم کردیا تھا۔  ہندو تنظیمیں منہدم بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی مسلسل کوشش کر رہی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بھگوان رام اس مقام پر پیدا ہوئے تھے اور وہاں مندر توڑ کر 1528ء میں بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں