بابری مسجد کیس، سرکردہ ہندو لیڈروں کے خلاف مقدمہ چلے گا
19 اپریل 2017جن ہندو رہنماؤں کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا، ان میں سابق نائب وزیر اعظم ایل کے ایڈوانی اور بی جے پی کے سابق صدر مرلی منوہر جوشی بھی شامل ہوں گے۔ ان کے ساتھ ساتھ وفاقی خاتون وزیر اوما بھارتی اور کلیان سنگھ بھی شامل ہوں گے۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق بھارت کا قانونی نظام اس قدر کمزور ہے کہ یہ معاملہ گزشتہ پچیس برس سے چل رہا ہے اور ابھی تک اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچا۔ بھارتی سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے سے پہلے بھارت کی ایک زیریں عدالت نے ان چار ہندو رہنماؤں کو اس سازش میں ملوث ہونے کے الزام سے بری کر دیا تھا۔
سولہویں صدی میں مغل بادشاہ بابر کے سپہ سالار میر باقی کے ایماء پر تعمیر کرائی گئی بابری مسجد کو شدت پسند ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد اور قوم پرست ہندوؤں کی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد کارکنوں نے چھ دسمبر 1992ء کو منہدم کردیا تھا، جس کے بعد بھارت کے کئی شہروں میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے تھے اور دو ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
ان چاروں ہندو رہنماؤں پر شرانگیز تقریریں کرنے اور اپنے ہندو پیروکاروں کو تشدد پر اکسانے کا الزام ہے۔ جواب میں ان چاروں کا کہنا یہ ہے کہ مسجد پر حملہ کرنے کا فیصلہ مشتعل ہجوم کی طرف سے اچانک کیا گیا تھا۔
89 سالہ ایڈوانی بھارت کے وزیر داخلہ اور نائب وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں جبکہ بی جے پی کے صدر کا عہدہ بھی ان کے پاس رہا ہے۔ جوشی اور بھارتی دونوں وفاقی قانون ساز ہیں جبکہ اوما بھارتی موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ کی رکن بھی ہیں۔ کلیان سنگھ اس وقت ایک بھارتی صوبے کے گورنر ہیں اور اس وجہ سے انہیں قانونی استثنیٰ حاصل ہے۔ سنگھ کے خلاف مقدمے کا آغاز اُن کی طرف سے اپنا عہدہ چھوڑنے کے بعد ہو گا۔ سن 1992ء میں مسجد کے انہدام کے وقت سنگھ اتر پردیش کے چیف منسٹر تھے اور اسی ریاست میں ایودھیہ کے مقام پر بابری مسجد منہدم کی گئی تھی۔
عدالت نے یہ مقدمہ اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنئو میں چلانے کا کہا ہے اور اس کی سماعت دو سال کے اندر اندر مکمل کی جائے گی۔