بابری مسجد کے انہدام کی 26 ویں برسی،’یوم فتح اور یوم سیاہ‘
6 دسمبر 2018شدت پسند ہندو تنظیموں بشمول وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے آج چھ دسمبر کو یوم شجاعت اور یوم فتح کے طورپر منایا جب کہ مسلم تنظیموں نے آج یوم غم اور یوم سیاہ منایا۔ تاہم یہ پروگرام بڑی حد تک رسمی طور منائے گئے۔ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے صرف اجودھیا میں ہی ڈھائی ہزار سے زائد سیکورٹی فورس تعینات کی گئی تھی۔ لوگوں کے دلوں سے خوف و ہراس کو دور کرنے کے لیے نیم فوجی دستوں نے فلیگ مارچ بھی کیا۔
قابل ذکر بات ہے کہ اس سال بابری مسجد۔ رام جنم مندر کا معاملہ گزشتہ برسوں کے مقابلے کچھ زیادہ شدت کے ساتھ اٹھایا جارہا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے رام مندر کے معاملے کو اتنی شدت کے ساتھ اٹھانے پر حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی حکومت کی سخت نکتہ چینی کی ہے۔
سابق مرکزی وزیر اور لوک تانترک جنتا دل کے صدر شرد یادو نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’الیکشن سے ٹھیک قبل مندر کے معاملے کو اٹھانے کا مقصد ملک کو فرقوں میں تقسیم کرنا ہے۔ بی جے پی الیکشن سے قبل مندر کے معاملے کوصرف اس لیے اٹھاتی ہے تاکہ مذہبی بنیاد پر سیاسی صف بندی کی جا سکے۔‘‘
شرد یادو کا مزید کہنا تھا، ’’چھ دسمبر کو اجودھیا میں جس عمارت کو منہدم کیا گیا وہ کسی ڈھانچہ کا گرایا جانا نہیں تھا بلکہ بھارت کی آئین کو منہدم کیا گیا تھا اور آئینی قدروں کو توڑا گیا تھا۔ ملک کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ جمہوری قدروں کا زوال ہوتا جارہا ہے،جو انتہائی تشویش کی بات ہے۔‘‘
سابق مرکزی وزیر شرد یادو کے بقول،’’بھارتی آئین مشترکہ وارثت کی بات کرتا ہے۔ یہ ملک کثرت میں وحدت والا ملک ہے ۔ یہاں ہر طرح کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے عدالتوں کے دروازے ہر ایک کے لیے کھلے ہیں اور سب کو عدالت کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔‘‘
خیال رہے کہ بابری مسجد۔ رام جنم بھومی کا معاملہ کئی دہائیوں سے عدالت میں زیر التوا ہے۔ اسے بھارتی عدالتی تاریخ میں سب سے قدیم تنازعات میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ مسلم تنظیموں نے پہلے ہی باضابطہ یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تاہم حکمراں جماعت بی جے پی اور دیگر ہندو تنظیمیں مسلمانوں کو اس مسئلے کو عدالت سے باہرطے کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے مسلسل کوشش کر رہی ہیں۔ دوسری طرف شدت پسند ہندو تنظیمیں مودی حکومت پر آرڈیننس متعارف کرا کے رام مندر کی تعمیر کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں۔
بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفر یاب جیلانی نے ایک بیان جاری کر کے وفاقی اور ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ اجودھیا میں متنازعہ جگہ کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے۔ انہوں نے ماحول خراب کرنے یا اشتعال انگیز تقریر کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے نیز مسلمانوں سمیت تمام لوگوں کی حفاظت یقینی بنانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
یہاں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رام مندر تحریک میں نئی جان ڈالنے کا مقصد صرف اور صرف سیاسی ہے اور اس کا ہندوؤں کے عقیدہ یا مذہب سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہ منصوبہ سازی کے ساتھ کی جانے والی ایک سیاسی کوشش ہے، کیوں کہ اقتدار میں آنے کے بعد ساڑھے چار برس تک حکمراں جماعت بی جے پی بالکل خاموش رہی اور اب چونکہ الیکشن قریب ہے اس لیے اس مسئلے کو اٹھا کر ہندو مسلم صف بندی کرنا چاہتی ہے۔
اپوزیشن کانگریس سمیت دیگر جماعتوں کا الزام ہے کہ مودی حکومت نے صرف نعرے اور وعدے دیے ہیں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی رام مندر کے معاملے کو اس لیے بھی ایک مرتبہ پھر شدت سے اٹھارہی ہے کیوں کہ اسے اندازہ ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت نہیں ہونے کے سبب وہ رام مندر کی تعمیر کے سلسلے میں کوئی قانون منظور نہیں کراسکتی ہے لیکن رائے دہندگان کو یہ پیغام ضرور دے سکتی ہے کہ اسے آئندہ عام انتخاب میں بھاری اکثریت سے کامیاب کرائیں تاکہ رام مندر کی تعمیر کا خواب پورا کر سکے۔
اس سے پہلے گزشتہ اکتوبر میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی سماعت جلد شروع کرنے کی حکومت کی درخواست مسترد کردی تھی اور سماعت جنوری کے پہلے ہفتہ میں شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ نے اس تاخیر کے لیے اپوزیشن کانگریس کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ قبل ازیں رام مندر کی تعمیر کے مطالبہ پر زور دینے کے لیے خود سوزی کی دھمکی دینے والے ہندو مذہبی رہنما پرم ہنس داس کو پولیس نے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ہے۔
خیا ل رہے کہ مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے سپہ سالار میر باقی کی 1528 عیسوی میں اترپردیش کے شہراجودھیا میں تعمیر کردہ بابری مسجد کو ہندو انتہا پسندوں نے چھ دسمبر سن 1992 کو منہدم کردیا تھا۔ اس کے بعد پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے، جس میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔