1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

باجوڑ حملہ: دہشت گردی کی روک تھام میں ناکامی کیوں؟

فریداللہ خان، پشاور
31 جولائی 2023

حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں پہلے تسلسل کے ساتھ پولیس کو نشانہ بنایا گیا اور اب ایک سیاسی پارٹی ان حملوں کا ہدف بنی۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب ملک میں نئے انتخابات کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

Pakistan | Beerdigung, Verwandte und Trauernde tragen den Sarg eines Opfers
باجوڑ حملے میں مارے جانے والوں کی تدفین میں سینکٹروں افراد نے شرکت کیتصویر: Mohammad Sajjad/AP/picture alliance

سال رواں کے دوران پاکستان کے افغان سرحد پر واقع اضلاع  سمیت صوبہ خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں دہشت گردی کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں ابتدائی طور پر پولیس اہلکاروں اور ان کے تھانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

 اتوار تیس جولائی کو باجوڑ میں جے یو آئی (ایف) کے اجتماع پر ہونے والا خود کش حملہ کے پی میں کیے جانے والے دہشت گردانہ حملوں کا ہی ایک تسلسل تھا۔ رواں برس جنوری میں صوبائی دارالحکومت پشاور کے ایک انتہائی حساس علاقے میں واقع پولیس لائن کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں ایک سو سے زیادہ پولیس اہلکار اور شہری مارے گئے تھے۔

باجوڑ بم دھماکے ہلاکتوں کی تعداد 54 ہو گئی

01:09

This browser does not support the video element.

سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان

  جمیعت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزیر اعظم سے واقعے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اس حملے کی مذمت کی۔  عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کا کہنا تھا،''دہشت گردی کی روک تھام کا واحد حل نیشنل ایکشن پلان پرمن و عن عمل درآمد ہے۔'' انکا مزید کہنا تھا کہ صوبے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات تشویشناک ہیں۔ ان کے بقول دہشت گردی میں اضافے کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں، جنہوں نے دہشت گردوں کی سہولت کاری کی۔ ایمل ولی خان کہنا تھا کہ دہشتگردوں کو 'فائٹرز' کہنے والے کس منہ سے اس طرح کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔''

 صحت  کی سہولیات کا فقدان

باجوڑ دھماکے میں شدید زخمی افراد کے لیے مقامی ہسپتالوں میں سہولیات اور گنجائش کی کمی کی وجہ سے انہیں پشاور منتقل کیا گیا  لیکن طویل اور دشوار راستوں کی وجہ سے انہیں  مکمل طبی امداد پہنچانے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ اس صورتحال کی وجہ سے زیادہ تر زخمی راستے یا پھر ہسپتال پہنچ کر دم توڑ گئے۔ تمام  تر حکومتی دعووں اور وعدوں کے باوجود  قبائلی علاقوں کے عوام کو صحت، تعلیم  اور پرامن ماحول فراہم نہیں کیا جا سکا۔

قبائلی اضلاع میں امن کے قیام میں رکاوٹیں

سال2018ء میں قبائلی اضلاع کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا تھا۔ اس موقع پر ان پسماندہ اضلاع کو ملک کے دوسرے اضلاع کے برابر لانے کے لیے سالانہ ایک سو ارب روپے فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا جبکہ تقریبا انتیس ہزار غیر تربیت یافتہ سکیورٹی اہلکاروں کو پولیس میں شامل کیا گیا لیکن وفاق سمیت دیگر صوبے مطلوبہ فنڈز فراہم کرنے میں ناکام رہے۔

جب اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے قبائلی اور افغان اُمور کے ماہر شمس مومند سے بات کی تو انکا کہنا تھا، "قبائلی اضلاع پاکستان کے اسٹریٹجک علاقے میں  شامل ہین اور یہاں سے ہر طرح کے فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں لیکن حکومتوں کی پالیسیویوں نے ان علاقوں کو ملک بھر کے امن و امان کیلئے خطرہ بنا کے رکھ دیا ہے ۔''

مقامی سطح پر صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے زخمیوں کو پشاور منتقل کرنا پڑاتصویر: Rescue 1122 Head Quarters/AP/picture alliance

 ان کا کہنا تھا کہ سترسال سے بنیادی سہولیات سے محروم قبائلی عوام کو مزید محرومیوں میں دھکیل دیا گیا ہے ۔ اس تجزیہ کار کے مطابق پانچ سال میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں  وعدے کےمطابق 600ارب روپے میں سے ڈیڑہ سو ارب روپے بھی فراہم نہ کرسکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جن غیر تربیت یافتہ پولیس اہلکاروں کو پختونخوا پولیس میں ضم کیا گیا انہیں  گوریلا جنگ کا سامنا کرنے کے لیے نہ تو تربیت دی گئی اور نہ ہی انہیں جدید سازو سامان فراہم کیا گیا ۔شمس مومند کا کہنا تھا ،''قبائلی اضلاع میں سہولیات کا بھی فقدان ہے جبکہ اکثریتی نوجوان بے روزگار ہیں جب حکومتیں اپنی خارجہ پالیسی کا رخ تبدیل کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں تو اس سے قبل اسکے لیے ہر قسم کی تیاری ضروری ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہوا۔''  انہوں نے حکمرانوں کو خبردار کرتے ہوئےکہا،'' قبائلی اضلاع کو وعدے کے مطابق ملک کے دیگر  اضلاع کے برابر لایا جائے ورنہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ دہشت گردی کا یہ سلسلہ صرف پختونخوا تک محدود رہے گا "

 تحقیقات کا آغاز

صوبائی محکمہ انسداد دہشت گردی کے عملے نے باجوڑ میں ہونے والے حملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ حکام نے ابتدائی طور پر  اسے خود کش حملہ قرار دیا  ہے۔ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل شوکت عباس نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آور گروپ کی شناخت کر لی گئی ہے اور ملزمان تک تقریباﹰ پہنچ چکے ہیں۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اس دھماکے میں 10 سے 12 کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ سی ٹی ڈی نے نامعلوم افراد کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔''

دہشت گردی ختم، اب کہانی کچھ اور ہے

04:06

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں