1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’باجوڑ حملے اور اسلام آباد کے خود کُش حملے کی کڑیاں ملتی ہیں‘

شکور رحیم/ اسلام آباد4 جون 2014

بدھ کے روز ہی پاکستانی دفتر خارجہ نے قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں سرحد پار سے دراندازی کے نتیجے میں دو سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت پر افغانستان سے احتجاج کیا تھا۔

تصویر: Reuters

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے مضافات میں آج صبح ہونے والے ایک خودکش حملے میں فوج کے دو افسران سمیت پانچ افراد ہلاک اور چار زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ خودکش حملہ اسلام آباد کے مضافاتی علاقے ترنول کے قریب فتح جنگ روڈ پر قطبال ریلوے پھاٹک کے نزدیک اس وقت ہوا جب یہ فوجی افسران اپنے دفتر جا رہے تھے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق خودکش حملے میں ڈبل کیبن گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ جس کے نتیجے میں گاڑی میں سوار کرنل ظاہر شاہ اور کرنل ارشد ہلاک ہو گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق حملے میں تین راہگیر بھی مارے گئے۔ ذرائع کے مطابق حملے میں نشانہ بننے والی گاڑی نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس کی تھی۔

عینی شاہدین کے مطابق پیدل خودکش حملہ آور نے قطبال پھاٹک کے قریب فوجی افسران کی گاڑی کو اس وقت نشانہ بنایا جب اس کی رفتار سست تھی۔
پولیس حکام کے مطابق حملے کی زد میں آ کر قریب سے گزرنے والے ایک رکشے کا ڈرائیور اور دو سوار بھی ہلاک ہو گئے۔ حملے میں دو فوجی اہلکاروں سمیت چار افراد زخمی بھی ہوئے۔ ایک عینی شاہد نے زرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،"میں کچھ دور کھڑا تھا تو زوردار آواز سنائی دی جیسے کسی گاڑی کا ٹائر پھٹا ہو۔ میں نے قریب آ کر جب دیکھا تو یہاں بم بلاسٹ ہوا تھا۔ کسی کا دھڑ ادھر پڑا تھا کسی کی ٹانگیں ادھر پڑی ہوئی تھیں تو ان کو اٹھا کر لے گئے۔"

حملے کے فوراً بعد پولیس اور فوج کے اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا جبکہ امدادی ٹیموں نے ہلاک اور زخمی ہونیوالوں کو ہسپتال منتقل کر دیا۔ ابھی تک کسی نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی ہو سکتی ہے۔

دفاعی امور کے ایک ماہر لفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خود کش حملوں کا سد باب کرنے کے لئے بڑے شہروں میں خفیہ معلومات کے نظام کو ہنگامی طور پر بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی مدد کے بغیر خودکش حملہ آور کے لئے ہدف کو نشانہ بنانا مشکل ہوتا ہے۔ جنرل امجد کے بقول،" اگر ہم کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں بہت بڑے پیمانے پر مضافاتی علاقوں کی چھان بین کرنا پڑے گی۔ خفیہ اداروں کو بھی پولیس کو بھی اس سے اگر یہ لنک ٹوٹ جاتا ہے تو باہر سے آنے والا خودکش حملہ آور بے کار ہو جاتا ہے کیونکہ اس کو زیادہ پتہ نہیں ہوتا کہ اس نے کہاں جانا ہے اور کہاں دھماکہ کرنا ہے۔"

بدھ کے روز ہی پاکستانی دفتر خارجہ نے قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں سرحد پار سے دراندازی کے نتیجے میں دو سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت پر افغانستان سے احتجاج کیا ہے۔ پاکستانی دفترِ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق گذشتہ دس دنوں میں یہ اس نوعیت کا تیسرا واقعہ ہے۔ بیان کے مطابق بدھ کی صبح سرحد پار سے مسلح عسکریت پسندوں نے باجوڑ ایجنسی کے علاقے مانوزنگل اور مخہ ٹاپ میں قائم پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملہ کیا۔

تجزیہ کار باجوڑ حملےاور اسلام آباد خود کش حملے کو ایک ہی سلسلے کی کڑیاں قرار دیتے ہیں۔ امجد شعیب کا کہنا ہے کہ " زیادہ جو مذاکرات کے مخا لف لوگ تھے وہ مولوی فضل اللہ کے لوگ ہیں جو کنٹر میں نورستان کے علاقے میں ہیں اور ہمیں وہ ہینڈل کرنے کے لئے باجوڑ کی طرف سے دراندازی کے راستوں کی نگرانی کرنی پڑے گی اسے روکنا پڑے گا ساتھ ہی افغانستان کو بڑا کلئیر پیغام دینا پڑے گا۔ آپ نے آج ان سے احتجاج کیا ہے لیکن خالی احتجاج سے ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔"

واضح رہے کہ حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی امن کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ مارچ کے اواخر سے تعطل کا شکار ہے جس کے بعد سکیورٹی اہلکاروں اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں