1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمپاکستان

باجوڑ دھماکے میں داعش کا ہاتھ ہو سکتا ہے، پاکستانی حکام

31 جولائی 2023

سابقہ قبائلی علاقے میں جے یو آئی کی ریلی میں ہو نے والے خود کش حملے میں ہلاکتوں کی تعداد چون ہو گئی۔ حملے میں ہلاک ہو نے والوں کی تدفین کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔

Pakistan Bajur | Bombenschlag auf politische Veranstaltung
خودکش حملے میں جے یو آئی کے مقامی سربراہ سمیت متعدد عہدیدار ہلاک ہوئےتصویر: Pakistan's Emergency Rescue 1122 Service/AFP

پاکستانی تفتیش کاروں کے مطابق گزشتہ روز باجوڑ میں ہونے والے بم دھماکے کے پیچھے داعش کا ہاتھ ہو سکتا ہے تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی حتمی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے۔ اسی دوران جمعیت علمائے اسلام کی سیاسی ریلی میں ہونے والے خودکش بم حملے میں ہلاکتوں کی تعداد آج پیر کے روز بڑھ کر چون تک پہنچ گئی ہے۔

اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین کا سلسلہ بھی آج سے شروع کر دیا گیا ہے۔باجوڑ میں ہونے والے اس بم دھماکے میں زخمیوں کی تعداد 150 سے زائد ہے، جن میں سے تقریبا نوے افراد کا علاج معالجہ جاری ہے۔ پولیس نے گزشتہ رات چھاپے مارتے ہوئے کم از کم تین مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

جے یو آئی کو ماضی میں بھی دہشت گردانہ حملوں کا سامنا رہا ہےتصویر: Bilal Yasir via REUTERS

 افغان سرحد کے قریب سابقہ پاکستانی قبائلی علاقے باجوڑ میں اتوار کو ایک خودکش بمبار نے خود کو جے یو آئی کی ریلی میں ہجوم کے درمیان اڑا دیا، یہ علاقہ کبھی پاکستانی طالبان یا ٹی ٹی پی کے زیر کنٹرول ہوا کرتا تھا۔

اتوار کو کم از کم 40 افراد ہلاک اور 150 سے زائد زخمی ہوئے۔ ریسکیو اہلکار بلال فیضی نے بتایا کہ کم از کم چھ مزید زخمی ہسپتالوں میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے، جس سے ہلاکتوں کی تعداد 46 ہو گئی۔

 صوبائی پولیس چیف اختر حیات خان نے تصدیق کی کہ یہ خودکش حملہ تھا اور حملہ آور کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جا رہا ہے۔

 مقامی پولیس کے سربراہ نذیر خان نے کہا کہ بم دھماکے سے ممکنہ تعلق میں کم از کم تین مشتبہ افراد کو راتوں رات گرفتار کیا گیا جبکہ انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

باجوڑ حملے میں ذخمی ہونے والے متعدد افراد کی حالت خطرے میں بتائی جاتی ہےتصویر: Rescue 1122 Head Quarters/AP/picture alliance

 خان نے مزید کہا، ''ہم نے ابتدائی تحقیقات سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ حملے میں داعش کا ہاتھ  ہے۔‘‘

’’اسلامک اسٹیٹ اِن خراسان‘‘ (ISIK)، جو کہ شدت پسند گروپ داعش کی مقامی شاخ ہے، 2015 سے افغانستان اور پاکستان دونوں میں سرگرم ہے اور کئی مہلک حملوں کے پیچھے بھی اس کا ہاتھ ہے۔ پاکستان میں انتخابات سے قبل  عسکریت پسندوں کے تشدد میں اضافہ 2008 سے ایک رجحان رہا ہے۔

ش ر ⁄  ا ا (ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں