باجوڑ میں بم حملہ، پانچ نیم فوجی اہلکار اور تحصیلدار ہلاک
مقبول ملک ڈی پی اے، اے ایف پی
17 ستمبر 2017
پاکستانی قبائلی علاقے باجوڑ میں ریموٹ کنٹرول کی مدد سے کیے گئے ایک بم حملے میں اتوار سترہ ستمبر کے روز ایک سینیئر حکومتی عہدیدار اور پانچ نیم فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے۔ یہ بم ایک سڑک کے کنارے نصب کیا گیا تھا۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے اتوار سترہ ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق مقامی حکام نے بتایا کہ شمال مغربی پاکستان میں افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب قبائلی علاقے میں یہ بم حملہ آج کیا گیا۔ باجوڑ ایجنسی کی مقامی انتظامیہ کے ایک رکن عزیز الوہاب نے بتایا کہ پاکستان کے اس علاقے کی سرحدیں ہمسایہ ملک افغانستان کے صوبے کُنڑ سے ملتی ہیں اور ہلاک ہونے والوں میں پولیٹیکل تحصیلدار کے علاوہ پانچ پیراملٹری فوجی بھی شامل ہیں۔
عزیز الوہاب کے مطابق ہلاک شدگان باجوڑ کے صدر مقام سے قریب 30 کلومیٹر کے فاصلے پر سفر میں تھے کہ ان کا سرکاری ٹرک سڑک پر نصب کیے گئے ایک ایسے بم کی زد میں آ گیا، جس کا دھماکا ریموٹ کنٹرول کی مدد سے کیا گیا۔
دیگر اطلاعات کے مطابق یہ بم حملہ باجوڑ کی تحصیل لوئی ماموند کے علاقے تنگی گڑیگال میں کیا گیا۔ پولیٹیکل تحصیلدار فواد علی تحصیل ماموند کے اعلیٰ ترین سرکاری اہلکار تھے جب کہ ان کے ساتھ اس دھماکے میں مارے جانے والے پانچوں پیراملٹری اہلکاروں کا تعلق لیویز سے تھا۔
باجوڑ شمالی اور شمال مغربی پاکستان کے ان سات نیم خود مختار قبائلی علاقوں میں سے ایک ہے، جو براہ راست وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہونے کی وجہ سے انگریزی میں مختصراﹰ ’فاٹا‘ کہلاتے ہیں۔ انہی ’وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں‘ میں پاکستانی فوج افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب کئی مقامات پر طویل عرصے سے یا تو ملکی اور غیر ملکی دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف مسلح آپریشن کر چکی ہے یا ابھی تک کر رہی ہے۔
ایک طویل سلسلے کے طور پر ان دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں پاکستانی فوج نے شدت پسندوں کے خلاف اپنی مسلح کارروائیوں کا آغاز 2014ء کے وسط میں کیا تھا۔ اب تک ان کارروائیوں میں سینکڑوں عسکریت پسند اور پاکستانی فوجی مارے جا چکے ہیں لیکن شدت پسندوں کی طرف سے مختلف علاقوں میں کیے جانے والے مسلح حملوں میں شہری آبادی اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کا سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔
افغان سرحد کے قریب انہی پاکستانی قبائلی علاقوں میں ابھی تک تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کے مقامی عسکریت پسندوں کے علاوہ القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے کئی شدت پسند ابھی تک نہ صرف موجود ہیں بلکہ انہوں نے وہاں اپنے ٹھکانے بھی قائم کر رکھے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس تازہ حملے کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے۔ یہ اعتراف ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے آج ہی کسی نامعلوم جگہ سے پریس کے نام جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کیا۔
شمالی وزیرستان کے عید کی خوشیوں کے منتظر بچے
عسکریت پسندوں کے خلاف جاری پاکستانی فوجی آپریشن ضربِ عضب کے باعث اب تک شمالی وزیرستان سے نکلنے پر مجبور ہو جانے والے شہریوں کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں عید کی خوشیوں کے منتظر بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: DW/D. Baber
انڈے فروخت کرتا طالب علم
شاکر اپنے گاؤں میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا۔ اب وہ ابلے ہوئے انڈے فروخت کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کو جتنا بھی منافع ملتا ہے، وہ اپنی والدہ کے پاس جمع کروا دیتا ہے تاکہ وہ عید کے موقع پر اس کے لیے اور اُس کی چھوٹی بہن کے لیے نئے کپڑے خرید سکے۔
تصویر: DW/D. Baber
مہندی کے خوبصورت رنگ
دنیا بھر کے مسلمان رمضان کے روزے رکھنے کے بعد عید کا تہوار مناتے ہیں۔ چھوٹی عید یا عید الفطر منانے میں بچے پیش پیش ہوتے ہیں۔ مہندی، چوڑیاں، نئے کپڑے اور نئے جوتے پہن کر ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ عید کی خوشیاں منائے لیکن اس سال وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے لاکھوں افراد گھر سے دور بے سر و سامانی کے عالم میں عید منا رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Baber
عید تب ہو گی، جب گھر لوٹیں گے
نائلہ کی عمر 12 سال ہے۔ اس نے بتایا کہ ان کی عید اس دن ہو گی جب حکومت ان کو واپس اپنے گاؤں جانے کی اجازت دے گی۔ اس کو اپنی بکریاں یاد آتی ہیں، جنہیں وہ میرعلی ہی میں چھوڑ آئی ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
لاپتہ والد اور چچا کی منتظر آنکھیں
تین سالہ سدرہ ہر وقت کیمپ میں مقیم دوسرے بچوں کو کہتی ہے کہ اس کے ابو اور چچا عید پر اس کو لینے آئیں گے اور اسے نئے کپڑے، بالیاں اور چوڑیاں خرید کر دیں گے لیکن سدرہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان دونوں کا گزشتہ ایک مہینے سے کچھ اتہ پتہ نہیں ہے اور یہ کہ اب تو رفتہ رفتہ ان کے زندہ ہونے کی امیدیں بھی دم توڑتی جا رہی ہیں۔ سدرہ کا والد اور چچا کرفیو کی وجہ سے میران شاہ میں پھنس گئے تھے۔
تصویر: DW/D. Baber
ننگے پاؤں پھرتا سیف اللہ
پانچ سالہ سیف اللہ اس بات پر بہت خوش ہے کہ اس کا نانا اسے جوتے خریدنے کے لیے بنوں شہر کے بازار لے کر آیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میرعلی سے سفر کے دوران اس کے چپل راستے میں گم ہو گئے تھے اور وہ آج تک بغیر چپل کے پھر رہا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ وہ ابھی بھی ان نئے جوتوں کو استعمال نہیں کرے گا بلکہ اب انہیں عید پر ہی پہنے گا۔
تصویر: DW/D. Baber
’آج تو ابو ضرور نئے کپڑے لائیں گے‘
کیمپ میں رہائش پذیر بچے دن بھر والدین کی راہ تکتے رہتے ہیں کہ وہ شام کو ان کے لیے کس قسم کی اشیاء لے کر آئیں گے، جو وہ ممکنہ طور پر عید پر پہن سکیں گے۔ چار سالہ شکیلہ کا کہنا ہے کہ اس کا والد اس کے لیے نئے سرخ رنگ کے کپڑے لے کر آئے گا:’’وہ روز وعدہ کرتے ہیں لیکن آج وہ ضرور لائیں گے‘‘۔
تصویر: DW/D. Baber
معصوم خواہشیں اور چوڑیاں
فائزہ کی چوڑیاں پہنے کی خواہش اس وقت پوری ہوئی جب ایک سرکاری افسر نے فائزہ کو روتے ہوئے دیکھ کر سو روپے دیے۔ اسے بازار لانے والے اس کے بھائی کا کہنا ہے کہ اس نے چوڑیاں لینے کی ضد اس لیے کی کیونکہ پڑوس کی بچیوں نے بھی عید کے لیے چوڑیاں خریدی تھیں۔
تصویر: DW/D. Baber
کرکٹ کا شوقین عباد
عباد کو کرکٹ کھیلنے کا بہت شوق ہے۔ اس کا پسندیدہ کھلاڑی شاہد آفریدی ہے۔ عباد کہتا ہے کہ اس کی عید تو اسی دن ہو گئی تھی، جب عمران خان کے لوگوں نے اس کو کھیلنے کے لیے ایک بیٹ دیا تھا۔ وہ صرف سہ پہر کو اپنے دوستوں کے ساتھ کیمپ میں کھیلتا ہے کیونکہ دن کے وقت بہت گرمی ہوتی ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
سلائی مشین کے لیے شکر گزار بصوبانہ
بصوبانہ پاک آرمی اور بحریہ ٹاؤن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتی ہے:’’میں ان دونوں اداروں کی بہت شکر گزار ہوں، انہوں نے مجھے سلائی مشین اور کپڑا دیا، اس کی وجہ سے اب عید پر اپنےاور بچوں کے لیے نئے کپڑوں کی فکرختم ہو چکی ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Baber
لکھ پتی چنے بیچنے پر مجبور
اپنے آبائی گاؤں دتہ خیل سے کوہاٹ نقل مکانی کرنے والے گلزار کا کہنا ہے کہ اس کا دتہ خیل میں لاکھوں روپوں کا ہول سیل کا کاروبار تھا۔ وہ کہتا ہے کہ حکومت نے انہیں نکلنے کے لیے صرف تین دن کا وقت دیا تھا جس کے دوران وہ صرف اپنے خاندان کو محفوظ مقام تک پہنچا پایا۔ اب وہ ایک مقامی تاجر کے ساتھ مل کر چنے بیچ رہا ہے اور یوں اپنے پانچ بچوں کو پال رہا ہے:’’میرے لیے یہ عید کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہے‘‘۔
تصویر: DW/D. Baber
کلاس روم کی بجائے لمبی لمبی قطاروں میں
شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے لوگوں میں زیادہ تر تعداد معصوم بچوں کی ہے۔ فاٹا ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق آئی ڈی پیز میں لگ بھگ چار لاکھ بچے شامل ہیں، جنہوں نے اپنے والدین کے ہمراہ ہجرت کی ہے۔ ان بچوں کو اپنی پڑھائی بھی منقطع کرنا پڑی ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ بچے اپنا یہ نقصان کیسے پورا کر پائیں گے۔
تصویر: DW/D. Baber
ہمہ وقت امدادی سامان کا انتظار
نقل مکانی کرنے والے بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ لوگ وزیرستان میں عید الفطر کے تہوار کو ہمیشہ جوش وخروش سے مناتے رہے ہیں لیکن اس سال صورت حال مختلف ہے۔ عید منانا اور بچوں کی خواہشات پوری کرنا تو دور، ان کی روزمرہ کی ضروریات پوری نہیں ہو رہی کیونکہ انہیں جنگ کی وجہ سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آنا پڑا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں اُن کا سارا وقت امدادی سامان کا انتظار کرتے گزرتا ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
راشن کے ساتھ کھلونے بھی
مختلف سرکاری ، غیرسرکاری اور فلاحی ادارے بے گھر لوگوں کی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ عید کی مناسبت سے راشن کے ساتھ ساتھ عید کی مناسبت سے بچوں کے لیے کھلونے اور دوسری اشیاء بھی تقسیم کی جا رہی ہیں، جن کے حصول کے لیے والدین کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔