1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیپاکستان

باجوڑ: جے یو آئی کے کنونشن میں دھماکا، درجنوں افراد ہلاک

30 جولائی 2023

باجوڑ میں جے یو آئی کے ورکرز کنونشن میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں مقامی رہنما سمیت کم از کم 40 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ درجنوں افراد شدید زخمی بھی ہیں جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

جے یو آئی کو ماضی میں بھی دہشت گردانہ حملوں کا سامنا رہا ہے
جے یو آئی کو ماضی میں بھی دہشت گردانہ حملوں کا سامنا رہا ہےتصویر: Rescue 1122 Head Quarters/AP/picture alliance

باجوڑ میں جے یو آئی کے ورکرز کنونشن میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں مقامی رہنما سمیت کم از کم 40 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ درجنوں افراد شدید زخمی بھی ہیں جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے: ٹی ٹی پی نے جنگ بندی ختم کر دی، دہشت گردی میں اضافےکا خدشہ

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں ضلع باجوڑ کی تحصیل خار میں ایک سیاسی اجتماع میں بم دھماکے کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق یہ دھماکا جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے ورکرز کنونشن کے دوران ہوا۔ کنونشن میں جے یو آئی کے سینکڑوں کارکن شریک تھے۔

ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ

ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس دھماکے میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ 50 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 35 سے زائد ہو چکی ہے۔

روئٹرز اور دیگر نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق ریسکیو حکام نے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پشاور مسجد حملے میں ہلاکتیں پچاس سے زائد، دو سو کے قریب زخمی

مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں جے یو آئی کے مقامی رہنما مولانا ضیا اللہ بھی شامل ہیں۔

ہم ٹی ٹی پی کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، بلاول بھٹو زرداری

11:30

This browser does not support the video element.

ڈی پی اے نے نجی ٹی وی جیو نیوز کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس واقعے میں چینل کے کیمرہ مین بھی شدید زخمی ہوئے ہیں۔

زخمیوں کو قریبی ہسپتالوں میں پہنچا دیا گیا ہے جب کہ شدید زخمیوں کو صوبائی دارالحکومت پشاور بھی منتقل کیا جا رہا ہے۔ حکام کے مطابق زخمیوں کو پشاور منتقل کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کیے جا رہے ہیں۔

سکیورٹی حکام کے مطابق دھماکے کی جگہ سے شواہد جمع کیے جا رہے ہیں، تاہم فی الحال دھماکے کی نوعیت کے بارے میں کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔

جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے اس دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان کی جماعت ماضی میں بھی دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ یہ مذہبی سیاسی جماعت افغان طالبان کی حامی سمجھی جاتی ہے۔

ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی۔ تاہم ماضی میں ٹی ٹی پی اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں ایسے حملوں میں ملوث رہی ہیں۔

ش ح/ م م (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں