باجوڑ میں خود کش حملہ، طالبان مخالف ملیشیا رہنما ہلاک
24 اپریل 2011![](https://static.dw.com/image/6373745_800.webp)
خار سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ حملہ ہفتہ کی شام کیا گیا اور ہلاک شدگان اس بم دھماکے کی زد میں اس وقت آئے جب وہ علاقے میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف معمول کے گشت پر تھے۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ خود کش حملہ خار سے 65 کلومیٹر کے فاصلے پر سالار زئی کے علاقے میں کیا گیا اور ہلاک ہونے والے ملیشیا رہنما کا تعلق بھی اسی قبیلے سے تھا۔ اس واقعے میں ایک خود کش حملہ آور نے خود کو ملک مناسب خان کی گاڑی کے سامنے دھماکے سے اڑا دیا۔
مناسب خان نہ صرف سالار زئی قبیلے کے سربراہ تھے بلکہ وہ اپنے قبیلے کے زیر اثر علاقے میں ایک ایسے لشکر کی قیادت بھی کر رہے تھے، جس نے طالبان عسکریت پسندوں کو وہاں سے نکال دیا تھا۔ خار میں ایک اعلیٰ پولیس اہلکار جاوید خان نے بتایا کہ اس دھماکے میں ملک مناسب خان کے علاوہ چار دیگر افراد بھی ہلاک ہو گئے، جن میں ایک نیم فوجی اہلکار بھی شامل تھا۔
اے ایف پی کے مطابق علاقے میں موجود پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے بھی اس حملے اور اس میں ملک مناسب خان سمیت پانچ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔
ابھی تک کسی بھی عسکریت پسند گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ پولیس اہلکار جاوید خان کے بقول پاکستانی قبائلی علاقے میں مقامی طالبان ماضی میں بھی ملک مناسب خان کو ہلاک کرنے کی کم از کم چار ناکام کوششیں کر چکے تھے۔ اس کی وجہ سالار زئی قبیلے کی طرف سے مناسب خان کی سربراہی میں طالبان کے خلاف تشکیل دیا جانے والا وہ لشکر ہے، جس کی مسلح کاوشوں سے کم از کم سالار زئی کا علاقہ طالبان سے پاک ہو گیا تھا۔
باجوڑ ایجنسی میں سالار زئی قبیلے اور طالبان کے درمیان اس کشیدگی کے پس منظر میں گزشتہ برس دسمبر میں کرسمس کے روز اقوام متحدہ کے خوراک کی تقسیم کے ایک مرکز پر کیے جانے والے ایک خود کش حملے میں بھی 43 افراد مارے گئے تھے۔ اس کا سبب بھی سالار زئی لشکر کی کارروائیاں تھیں، جن کی حکومت کی طرف سے مکمل حمایت کی جاتی تھی۔ قریب پانچ ماہ قبل خار میں یہ بم دھماکہ ایک ایسی برقعہ پوش خاتون نے کیا تھا، جسے حکام نے پاکستان کی پہلی مصدقہ خود کش خاتون حملہ آور قرار دیا تھا۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: شادی خان سیف