1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیپاکستان

باجوڑ میں داعش کا کمانڈر دو ساتھیوں سمیت ہلاک، پاکستان آرمی

28 جون 2023

پاکستانی سکیورٹی فورسز نے بدھ 28 جون کو افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب عسکریت پسندوں کے خلاف ان کے ایک ٹھکانے پر کارروائی کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیم داعش کے ایک کمانڈر اور اس کے دو ساتھیوں کو ہلاک کر دیا۔

Pakistan will offenbar Blockade des NATO-Nachschubs beenden
تصویر: dapd

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق پاکستانی فوج کی طرف سے بتایا گیا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف ان کی ایک پناہ گاہ پر آپریشن کے دوران جو تین شدت پسند مارے گئے، ان میں سے ایک دہشت گرد تنظیم داعش یا 'اسلامک اسٹیٹ‘ کا ایک کمانڈر تھا اور باقی دو اس کے ساتھی انتہا پسند۔

داعش کے جنگجو پاکستان میں پھیل رہے ہیں

یہ کارروائی خیبر پختونخوا میں پاکستان کی افغانستان کے ساتھ قومی سرحد کے قریب ضلع باجوڑ میں کی گئی۔ باجوڑ پاکستان کے چند برس پہلے تک فاٹا کہلانے والے اور وفاق کے زیر انتظام ان چھ سابقہ نیم خود مختار قبائلی علاقوں میں سے ایک ہے، جو اب باقاعدہ طور پر صوبے خیبر پختونخوا کا حصہ ہیں۔

شمالی وزیرستان کی وادی شوال میں پاکستانی فوج کی ایک سکیورٹی پوسٹتصویر: Getty Images/AFP

مارا جانے والا داعش کمانڈر حکومت کو مطلوب تھا

پاکستانی فوج کے مطابق اس مسلح کارروائی میں داعش کا جو کمانڈر مارا گیا، اس کا نام شفیع اللہ تھا، جو پاکستانی حکومت کو اس لیے مطلوب تھا کہ وہ نہ صرف ملکی سکیورٹی دستوں پر کئی حملوں میں ملوث تھا بلکہ اس کی وجہ سے کئی عام پاکستانی شہری بھی مارے گئے تھے۔

پشاور کی مسجد میں خود کش حملہ: داعش کا بمبار افغان شہری تھا

فوج کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس آپریشن میں داعش کے ان تینوں دہشت گردوں کی ہلاکت کے بعد سکیورٹی دستوں نے ان کی پناہ گاہ سے کافی زیادہ ہتھیار اور گولہ بارود بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ کارروائی باجوڑ میں ملکی فوج کے ایک کلیئرنس آپریشن کے دوران کی گئی۔

پاکستانی حکام کے بقول سابقہ قبائلی علاقوں میں اب عسکریت پسندوں کی موجودگی بہت کم ہے اور جو شدت پسند ابھی تک وہاں ہیں، ان کے خلاف کارروائیاں جاری ہیںتصویر: AP

پاکستانی فوج کی طرف سے حالیہ برسوں میں افغان سرحد سے متصل قبائلی پٹی میں کئی بڑے آپریشن کیے جا چکے ہیں۔ ماضی میں یہ سرحدی علاقے عشروں تک مقامی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے لیے استعمال ہوتے رہے تھے۔

کابل میں پاکستانی سفارتخانے پر حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا، طالبان

اب لیکن حکام کے بقول وہاں عسکریت پسندوں کی موجودگی بہت کم ہے اور جو شدت پسند ابھی تک وہاں موجود ہیں، ان کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔

ان سابقہ سرحدی قبائلی علاقوں میں یہ عسکریت پسند اب بھی وقفے وقفے سے مسلح حملے کرتے رہتے ہیں۔

م م/ا ب ا (اے پی)

سابق فاٹا علاقوں کا لینڈ ریکارڈ مرتب نہ ہونے سے عوام مشکلات کا شکار

04:13

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں