دنیا کی مہنگی شراب جو امریکا اور یورپ میں فروخت ہوتی ہے، وہ ناقابلِ یقین مقامات پر کشید کی جاتی ہے۔ ایسے مقامات میں سے ایک، چین میں ہمالیہ پہاڑ کی ڈھلانوں کے علاقے ہیں، جہاں آج کل انگور کی فصل پک چکی ہے۔
اشتہار
کوہ ہمالیہ کی ڈھلانوں پر واقع مئیلی کی پہاڑیاں چین کے جنوب مغربی صوبے یُننان میں واقع ہیں۔ یہ بائیس سو میٹر ( 7218 فٹ) بلند ہیں۔ یہ علاقہ تبت سے بہت قریب ہے۔ انہی پہاڑیوں میں چینی شہری او یُن کے انگوروں کے باغات ہیں۔ او یُن کے یہ انگور شراب کشید کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
ایک طرف چین میں شراب کی کھپت میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے تو دوسری جانب ہمالیہ کے ڈھلوانی علاقوں میں پکنے والے انگوروں سے بنائی جانے والی شراب کے یورپی اور امریکی دلدادگان بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ او یُن کے انگوروں کے باغات اور پھر ان سے شراب کشید کا عمل بادلوں سے بلندی پر واقع پہاڑیوں پر کیا جاتا ہے۔
فرانس کے مشہور شراب ساز ادارے موئت ایننیس (Moet Hennessy) کا یہ دعویٰ ہے کہ یُننان کی پہاڑیوں پر سے سرخ شراب کی بہترین بوتل کشید کی جا سکتی ہے۔ او یُن نے اپنی شراب کشید کرنے کا سلسلہ سن 2013 میں شروع کیا تھا اور قریب پانچ برسوں کے بعد اُن کی محنت اور لگن کا عالمی اعتراف حاصل ہوا ہے۔ چینی تاجر او یُن کے ایسٹیٹ مینیجر میگسینا ڈولُو کا کہنا ہے کہ مئیلی کی پہاڑیاں فطرت کا ایک شاہ کار ہیں اور اس مقام پر فرانسیسی معیار کے مطابق انگور پکتے ہیں۔ اس معیار کو فرانسیسی معاشرت میں terroir کہا جاتا ہے۔
میگسینا ڈولو کا خیال ہے کہ جلد ہی چینی عوام کو یہ احساس ہو گا کہ فرانسیسی سرخ شراب کے معیار کی شراب اُن کے ملک میں بھی تیار کی جاتی ہے۔ او یُن کی کشید کی گئی سرخ وائن کو کئی شراب کے ذائقوں کے ماہرین کو حیران کر کے رکھ دیا ہے۔ ان ماہرین نے کوہ ہمالیہ کی ڈھلان پر کشید ہونے والی سرخ وائن کی خوشبو اور اس کے بتدریج نشے کو غیر معمولی قرار دیا ہے۔
یُنان کی پہاڑیوں پر کشید کی جانے والی اس غیر معمولی ذائقے والے سرخ وائن کے ابھی صرف دو ہزار صندوق یا باکسز سالانہ بنیاد پر تیار کیے جاتے ہیں اور ان کو چین کی مارکیٹ کے علاوہ ایشیائی، یورپی اور امریکی مارکیٹوں کو ایکسپورٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس سرخ وائن کی کم سے کم قیمت تین سو امریکی ڈالر ہے۔
چین میں فرانسیسی شراب ساز ادارے موئت ایننیس نے چار مقامات پر انگوروں کے باغات سے سرخ شراب کشید کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ چین کی شراب کی مارکیٹ کا حجم 72 بلین امریکی ڈالر ہے اور یہ ستائیس فیصد سالانہ کی بنیاد پر افزائش کر رہی ہے۔ سن 2021 میں چین شراب کی کنپت کا دوسرا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔
دنیا کا پہلا ’لائٹ آرٹ میوزیم‘
جرمن شہر اُونا میں قائم سنٹر فار انٹرنیشنل لائٹ آرٹ دنیا کا پہلا اور اکلوتا میوزیم ہے جس میں روشنی کی مدد سے فن پارے تیار کیے گئے ہیں۔ یہ میوزیم ایک سابق برُوری یا شراب کشید کرنے والی فیکٹری میں زیر زمین قائم کیا گیا ہے۔
تصویر: www.frankvinken.com
نیلے اور سرخ آنسو
1979ء میں بند کر دی جانے والی لِنڈن برُوری کی راہداریوں اور اسٹوریج کے لیے استعمال ہونے والے کمروں میں آرٹسٹوں نے اپنے فن پارے تخلیق کیے ہیں۔ انہی میں سے ایک ’ٹنل آف ٹیئرز‘ یعنی آنسووں کی سرنگ بھی ہے۔ اس میں سرخ اور نیلی فلوریسنٹ لائٹ کا استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: www.frankvinken.com
روشنی سے اندھیرے کی جانب
یہ زیر زمین میوزیم کئی ہزار مربع میٹر کے رقبے میں قائم ہے۔ جان فان مُنسٹر روشنی کو اس برُوری کے تہہ خانے میں چھائے اندھیروں میں لے آئے ہیں۔ اِس میوزیم میں گھومنے کے لیے ایک گائیڈ کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔
تصویر: www.frankvinken.com
روشنی کا لمس
جیمز ٹوریل نے اس میوزیم میں دو بڑے فن پارے تخلیق کیے ہیں۔ ان میں سے ایک ’’فلوٹر 99‘‘ ہے جس میں عمارت کا طرزِ تعمیر نیلگُوں اور جامنی روشنیوں میں ضم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
تصویر: www.frankvinken.com
جنت کا کھوج
روشنی کی مدد سے آرٹ تخلیق کرنے کے سرخیل جیمز ٹوریل کا یہ کام دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے کمرے میں روشنی فرش پر لگے ایک لینز سے گزرتی ہے جس کے باعث مختلف چھوٹی چھوٹی حرکات بڑی دکھائی دیتی ہیں۔ دوسرے حصے میں مصنوعی اور قدرتی روشنی کی مدد سے ماحول ترتیب دیا گیا ہے۔
تصویر: www.frankvinken.com
جیومیٹریکل لائٹ
فرانسوا موریلے نے ’نو اینڈ نیون‘ نامی اس تکنیکی فن پارے کے لیے ایک پرانے ریفریجریٹر کو استعمال کیا ہے۔ انہوں نے مختلف زاویوں سے نو نیون لائٹوں کو استعمال کیا ہے۔ یہ ٹیوبز حرکت کی صورت میں روشنی کو مختلف زاویوں پر منعکس کرتی ہیں۔
تصویر: www.frankvinken.com
برُوری کے پھول
ریبیکا ہورن جرمنی کے معروف ترین آرٹسٹوں میں شمار ہوتی ہیں۔ انہوں نے روشنیوں کی مدد سے بنائے گئے ماحول کو ’لوٹس شیڈو‘ کا نام دیا ہے یعنی کنول کا عکس۔ سمندر میں اگنے والے پھولوں کی طرح تانبے سے بنے لیمپ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔
تصویر: www.frankvinken.com
شیڈو پلے
کرسٹیان بولٹانسکی اندھیرے کے باعث پیدا ہونے والے اندرونی خوف سے کھیلتے ہیں۔ ان کے کام میں شیطان اور چڑیلوں جیسی اشکال اس طرح سے روشن کی گئی ہیں کہ ان کی شبیہات دیواروں پر ناچتی محسوس ہوتی ہیں۔
تصویر: www.frankvinken.com
درخشاں سُر
ساؤنڈ آرٹسٹ کرسٹیان کُوبش نے روشنی سے سُر اجاگر کرنے کے لیے 172 اسپیکرز استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا ماحول ترتیب دیا ہے جس میں آپ خود کو تیرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔
تصویر: www.frankvinken.com
لائٹ کیسز
ڈنمارک کے آرٹسٹ اولافر ایلیاسن نے آرٹ اور سائنس کا ایک حسین امتزاج ترتیب دیا ہے۔ یہاں آپ خود کو روشنی پر چلتے محسوس کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ یہ روشنی پانی کی طرح نیچے بہہ رہی ہے۔
تصویر: www.frankvinken.com
دی اسپیڈ آف لائٹ
روشنی کی رفتار نامی یہ ماحول برُوری کے داخلی راستے پر ترتیب دیا گیا ہے۔ روشنی کی مدد سے تیار کیے گئے ان بہت کم فن پاروں میں سے یہ ایک ہے جو سطح زمین سے اوپر بنائے گئے ہیں۔