پچپن سالہ امریکی صدر باراک اوباما کی دورِ صدارت کا آخری دن جمعہ بیس جنوری ہو گا۔ امریکا کے پہلے سیاہ فام صدر کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد اُن کا روز مرہ کے سیاسی معاملات میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔
اشتہار
امریکی صدر باراک اوباما کو امریکی عوام میں بے حد مقبولیت حاصل ہے۔ اوباما کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ ملکی سیاسی معاملات میں دخل دینا نہیں چاہتے لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ جمہوریت کے حوالے سے بنیادی مسائل پر بات نہیں کریں گے۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے پیش رو کی جانب سے اچھی خاصی منظم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کل یعنی بروز جمعہ بتاریخ بیس جنوری جب ٹرمپ اپنے عہدے کا حلف لے چکے ہوں گے، اوباما اپنی بیوی مِشیل اور دو کم عمر بیٹیوں مالیا اور ساشا کے ساتھ کیلیفورنیا میں چھٹیاں منانے روانہ ہوں گے۔ اوباما نے اپنے سابق ساتھی اور قریبی معاون کار ڈیوڈ ایکسلروڈ کو امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے لیے انٹرویو دیتے ہوئے کہا ،’’مجھے کچھ عرصے کے لیے خاموش رہنا ہے۔ خاموش رہنے سے میرا مطلب سیاسی طور پر خاموش رہنا نہیں ہے۔ مجھے اندرونی طور پر خود کو پر سکون کرنا ہے۔ ‘‘
سابق امریکی صدور اپنے مدت صدارت کے خاتمے کے بعد امریکی دارالحکومت میں کم ہی رہے ہیں تاہم صدر اوباما بیس جنوری کے بعد بھی اپنی بیٹی ساشا کے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل ہونے تک واشنگٹن میں ہی قیام کریں گے۔ باراک اوباما آبائی طور پر امریکی ریاست ہوائی کے رہنے والے ہیں۔ اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز اوباما نے شکاگو سے کیا تھا اور انہوں نے واشنگٹن کے لیے کبھی کسی قلبی تعلق کا اظہار نہیں کیا۔ تاہم اب اوباما نے واشنگٹن کے ایک اونچے درجے کے علاقے کالوراما کے مضافات میں ایک گھر کرائے پر لیا ہے۔
گزشتہ برس نومبر میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کی امریکی انتخابات میں شکست حیران کن تھی۔ ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کے بعد صدر اوباما نے تسلیم کیا کہ وہ اس جیت کی پیش بینی نہیں کر سکے تھے۔ سی این این کو بحیثیت صدر دیے گئے اپنے آخری انٹرویو میں اوباما نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنی شکست خوردہ جماعت کی تعمیرِ نو کے لیے کام کریں گے۔
بائے بائے باراک اوباما
امریکی صدر کی حیثیت سے جرمنی میں اپنے آخری پڑاؤ برلن سے باراک اوباما کا جرمن چانسلر میرکل کو الوداعی سلام۔ دیکھیے صدر اوباما کی جرمنی سے جڑی ماضی کی چند خوشگوار یادوں کی جھلکیاں
تصویر: Reuters/F. Bensch
نومبر سن 2016: خاموش آمد
اوباما’ ائر فورس ون ‘ طیارے سے براہِ راست برلن میں ہوٹل آڈالن پہنچے ۔ الوادعی دورے کے آغاز پر اُنہوں نےجرمن چانسلر میرکل سے رات کے کھانے پر موجودہ عالمی سیاسی صورتِ حال پر گفتگو بھی کی۔ دونوں عالمی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی اس ملاقات کی نوعیت نجی رہی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اپریل سن 2016: اوباما چانسلر میرکل کے مداح
مہاجرین کے بحران پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے طرزِ عمل سے باراک اوباما بہت متاثر تھے۔ اوباما نے میرکل کو اِس حوالے سے رول ماڈل قرار دیا۔ ہنوفر میلے میں ایک جذباتی تقریر کے دوران اوباما نے یورپی باشندوں کو مخاطب کر کے کہا ’’ میرکل نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ جب انسانوں کو ہماری ضرورت ہو تو ہمیں منہ نہیں موڑنا چاہیے۔ ‘‘
تصویر: Reuters/K. Pfaffenbach
جون سن 2015، جرمن مہمان نوازی کی کیا بات ہے
ایلماؤ کے شاندار محل میں بنے ہوٹل میں جی سیون اجلاس کے صبح کے سیشن سے پہلے امریکی صدر باراک اوباما خورد و نوش کے خالص باویرین انداز میں کیے گئے اہتمام سے خوب لطف اندوز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/G. Gajanin
جون سن 2013: دوستوں کے پاس خوش آمدید
جب آپ دوستوں میں ہوں تو پھر تکلفات میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ صدر اوباما نے بھی اسی لیے برلن میں برانڈن بُرگ گیٹ پر بے تکلفانہ انداز میں اپنی جیکٹ اتاری اور تقریر کو جاری رکھا۔ اوباما کو طویل عرصے سے یہاں آنے کی تمنا تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Niefeld
جون سن 2009: اداسی کے کچھ لمحات
واشنگٹن سے آئے جرمنی کے مہمان اوباما کے لیے ’بُوخن والڈ‘ کے اذیّتی کیمپ کا دورہ بے حد رقّت انگیز تھا۔
اذیّتی کیمپ کے ماحول کی گرفت میں آئے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا، ’’ یہاں آج بھی خوف کی ویسی ہی فضا ہے جو پہلے تھی۔ ‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. U. Koch
اپریل سن 2009: دلکش اور شاندار آمد
اوباما نے جرمن چانسلر کے ساتھ پریس کانفرنس کے بعد جرمن زبان میں شکریے کے الفاظ کہے۔ بعد ازاں انگریزی میں اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اوباما کا کہنا تھا ، ’’ بد قسمتی سے میری جرمن اتنی اچھی نہیں جتنی چانسلر میرکل کی۔‘‘ امریکی صدر کی اِس بات پر میرکل مُسکرا دِیں۔
تصویر: AP
جولائی سن 2008: پاپ اسٹار باراک اوباما
امریکا میں انتخابی مہم کے عرصے میں اوباما امریکی سینیٹر کی حیثیت سے برلن آئے تھے۔ دو لاکھ کے قریب افراد نے اُن کا ایک پاپ اسٹار کی طرح استقبال کیا۔ اُس روز میرکل نے باراک اوباما کو برانڈن بُرگ گیٹ پر لوگوں سے خطاب کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔