ہسپانوی پولیس بارسلونا میں دہشت گردانہ کارروائی میں ملوث حملہ آور کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔ دوسری طرف حکام نے بتایا ہے کہ بارسلونا اور کامبرلز میں حملوں کے لیے استعمال ہونے والے دہشت گردی کے مرکز کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
اشتہار
ہسپانوی پولیس نے بتایا ہے کہ بارسلونا میں وین کے ذریعے حملہ کرنے والا شخص ابھی تک زندہ ہے اور اس مفرور حملہ آور کی تلاش کے لیے کارروائی کی جا رہی ہے۔ وزرات داخلہ کے مطابق بارسلونا اور کامبرلز میں کیے گئے حملوں میں ملوث افراد کو ڈھونڈنے اور انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔
حکام نے نئے مشتبہ شخص کا نام یونس ابو یعقوب بتایا ہے، جو مراکش میں پیدا ہوا تھا۔
قبل ازیں بتایا گیا تھا کہ بارسلونا حملے میں ملوث سترہ سالہ موسیٰ الکبیر کامبرلز میں پولیس کی کارروائی میں ہلاک ہو گیا تھا۔
اس کارروائی میں پولیس نے پانچ مشتبہ افراد کو ہلاک کیا تھا۔
ہفتے کے دن ہسپانوی پولیس نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں مزید حملوں کا خطرہ برقرار ہے۔
بائیس سالہ ابو یعقوب کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ بارسلونا کے شمال میں واقع ریپول نامی شہر میں رہتا تھا۔
پولیس نے اس شہر میں چھاپہ مار کارروائیاں کرتے ہوئے تین مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے، جن سے تفتیشی عمل جاری ہے۔
فرانسیسی پولیس نے خبردار کیا ہے کہ غالبا یونس ابو یعقوب فرار ہو کر فرانس میں داخل ہو چکا ہے۔ اس تناظر میں اسپین اور فرانس نے سرحدی گزرگاہوں پر سکیورٹی سخت کر دی ہے جبکہ متعلقہ حکام نے شہریوں کو چوکنا رہنے کی تاکید بھی کی ہے۔
آج بروز ہفتہ ہسپانوی وزیر داخلہ نے میڈیا کو بتایا ہے کہ بارسلونا اور کامبرلز میں ہوئے حملوں میں استعمال ہونے والے دہشت گردی کے ایک مرکز کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ الکنر نامی شہر میں واقع اس مرکز سے مزید حملوں کی منصوبہ بندی بھی کی جا رہی تھی جبکہ اس سیل سے دیسی ساختہ بم بھی برآمد ہوئے۔
جمعرات کے دن بارسلونا میں ایک حملہ آور نے شہر کے مرکزی علاقے میں اپنی وین راہ گیروں پر چڑھا دی تھی، جس کے باعث تیرہ افراد ہلاک جبکہ سو سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اس کارروائی میں زخمی یا ہلاک ہونے والوں میں پاکستان سمیت مجموعی طور پر چونتیس ممالک کے باشندے شامل ہیں۔ عالمی طاقتوں نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔