ہسپانوی پولیس نے بارسلونا کے قریب ایک دہشت گردانہ حملے کو ناکام بنانے کا دعوٰی کرتے ہوئے جمعے کی صبح پانچ مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ دوسری جانب گزشتہ روز کے بارسلونا حملے کی ذمہ داری ’داعش نے‘ نے قبول کر لی ہے۔
اشتہار
اسلامک اسٹیٹ یا ‘داعش‘ کے خبر رساں ادارے عماق کے مطابق یہ دہشت گردانہ کارروائی اس تنظیم کے ’’سپاہیوں‘‘ نے کی ہے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ بارسلونا حملہ مختلف شدت پسند تنظیموں کی جانب سے اُن تمام ممالک کو نشانہ بنانے کے مطالبے کے جواب میں کیا گیا ہے، جو شام اور عراق میں آئی ایس مخالف اتحاد میں شامل ہیں۔ اس سے قبل بھی آئی ایس اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں یورپ میں اپنے حامیوں کو حملوں کی ترغیب دیتی رہی ہیں۔
اسپین کے طبی حکام نے تیرہ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے جبکہ سو سے زائد زخمیوں میں سے پندرہ کی حالت نازک ہے۔ گزشتہ روز ایک دہشت گرد نے بارسلونا کے معروف علاقے لاس رمبلاس میں اپنی گاڑی شہریوں پر چڑھا دی تھی۔
بارسلونا پولیس محکمے کے سربراہ خوسیپ تراپیور نے بتایا کہ اس حملے کے تناظر مں دو افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور اس میں ایک مراکشی شہری ہے جبکہ دوسر ے کا تعلق اسپین کے ایک خود مختار شہر ملیلہ سے ہے۔ تاہم حملے میں استعمال ہونے والی وین کا ڈرائیور ابھی تک مفرور ہے۔
اس واقعے کے بعد ملکی وزیراعظم ماریانو راخوئے اپنی چھٹیاں منسوخ کرتے ہوئے بارسلونا پہنچ چکے ہیں، جہاں انہوں نے اعلی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ راخوئے کے بقول، ’’دہشت گردی ایک عالمی خطرہ ہے اور اس کا جواب بھی عالمی سطح پر دیا جانا چاہیے۔‘‘
دوسری جانب آج جمعے کی صبح پولیس نے بارسلونا سے جنوب میں واقع ایک تفریحی مقام ’کامبرلز‘ پر پانچ افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے۔ پولیس نے بتایا ہے کہ یہ پانچوں آؤڈی کمپنی کی اس A3 کار پر سوار تھے، جس نے آج صبح سویرے ساحل سمندر پر بنے فٹ پاتھ پر چلتے والے سات افراد کو ٹکر مار کر زخمی کیا تھا۔ اس بیان میں مزید بتایا گیا کہ مشتبہ افراد میں سے کچھ خود کش جیکٹیں پہنے ہوئے تھے، جنہیں بعد میں ناکارہ بنا دیا گیا۔
پیرس میں دہشت گردی کی رات
پیرس میں دہشت گردی کی سلسلہ وار کارروائیوں کے نتیجے میں سو سے زائد افراد ہلاک اور دو سو افراد زخمی ہوئے ہیں۔ عالمی رہنماؤں نے ان حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے پیرس کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا ہے۔
تصویر: Reuters/C. Hartmann
منظم حملے
پولیس نے بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے ان منظم سلسلہ وار حملوں میں پیرس میں اور اس کے گرد و نواح میں سات مختلف مقامات کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کے نتیجے میں زخمیوں کی تعداد دو سو ہے، جن میں سو کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Faget
خوف و ہراس
پیرس کے باتاکلاں تھیئٹر میں مسلح افراد نے درجنوں افراد کو یرغمال بنا لیا تھا، جہاں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ سکیورٹی فورسز نے اس تھیئٹر کو بازیاب کرا کے زخمیوں کو ہسپتالوں میں منتقل کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Valat
خون ریزی اور بربریت
سکیورٹی فورسز نے باتاکلاں تھیئٹر کا محاصرہ کرتے ہوئے جمعے کی رات مقامی وقت کے مطابق ایک بجے اسے مسلح افراد کے قبضے سے آزاد کرایا۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آوروں نے اپنی پرتشدد کارروائیوں کے دوران ’اللہ اکبر‘ کے نعرے بلند کیے۔
تصویر: Reuters/C. Hartmann
فٹ بال اسٹیڈیم کے قریب دھماکے
پیرس کے شمال میں واقع نیشنل فٹ بال اسٹیڈیم کے قریب ہونے والے تین دھماکوں میں کم ازکم پانچ افراد مارے گئے۔ جمعے کی رات جب یہ حملے کیے گئے، اس وقت جرمن قومی فٹ بال ٹیم فرانسیسی ٹیم کے خلاف ایک دوستانہ میچ کھیل رہی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Ena
فرانسیسی صدر اولانڈ سکتے کے عالم میں
جب ان حملوں کی خبر عام ہوئی تو فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ فٹ بال اسٹیڈیم میں جرمنی اور فرانس کے مابین کھیلے جانا والا میچ دیکھ رہے تھے۔ بعد ازاں اولانڈ نے ان سلسلہ وار حملوں کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اپنے ایک مختصر نشریاتی پیغام میں انہوں نے کہا کہ ہنگامی حالت نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی سرحدوں کو بھی بند کیا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Marchi
سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی
ان حملوں کے فوری بعد پیرس میں سکیورٹی انتہائی الرٹ کر دی گئی۔ پندرہ سو اضافی فوجی بھی پولیس کی مدد کے لیے تعینات کیے جا چکے ہیں۔ حکام نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ان دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث تمام افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/K. Tribouillard
فرانسیسی شہری سوگوار
ان حملوں کے بعد فرانس سوگ کے عالم میں ہے۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ان پُر تشدد واقعات کے اختتام تک کم از کم 8 حملہ آور ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Ph. Wojazer
عالمی برادری کی طرف سے اظہار افسوس
عالمی رہنماؤں نے پیرس حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ان حملوں کو دہشت گردی کی سفاک کارروائی قرار دیا ہے۔
تصویر: Imago/ZUMA Press
امدادی کارروائیاں اور بے چینی
فرانسیسی میڈیا کے مطابق ان حملوں کے بعد پیرس میں سکیورٹی اہل کار اور امدادی ٹیمیں فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئیں۔ سکیورٹی اہل کاروں نے جمعے کی رات خوف و ہراس کے شکار لوگوں کو محفوظ مقامات تک منتقل کرنے میں مدد بھی کی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Tribouillard
امریکی صدر اوباما کا پیغام
پیرس حملوں کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ یہ حملے پیرس یا فرانس پر نہیں ہوئے بلکہ یہ انسانیت کے خلاف حملے ہیں۔ انہوں نے پیرس حکومت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اس مشکل وقت میں واشنگٹن اس کے ساتھ ہے۔
تصویر: Reuters/Ch. Platiau
میرکل کا اظہار یک جہتی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ وہ پیرس میں ہوئے ان حملوں کے نتیجے میں شدید دھچکے کا شکار ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ برلن حکومت پیرس کو ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔