ہسپانوی شہر بارسلونا میں ایک قدیمی چوک پر قائم ایک ریستوران مہاجرین کی کہانی سناتا ہے اور یہاں مہاجرین کو تربیت فراہم کی جاتی ہے، تاکہ ان کی زندگیوں کو بدلا جا سکے۔
بارسلونا کے ایک تاریخی چوک پر واقع ریستوران، فقط طعام کی جگہ ہی نہیں، بلکہ ایک اسکول بھی ہے اور پبلشنگ ہاؤس بھی، جہاں ایک طرف مہاجرین کی کہانیاں شائع کی جاتی ہیں اور ساتھ ہی ان مہاجرین کو تربیت بھی دی جاتی ہے، تاکہ ان کی زندگیوں میں بہتری لائی جائے۔
اس ریستوران میں وینیزویلا، سینیگال اور پاکستان جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو کھانا پکانے اور پیش کرنے کی تربیت دی جاتی ہے اور ساتھ ہی کاتلان معاشرے میں ان کے انضمام کی راہ ہم وار کی جاتی ہے۔ اس ریستوران میں سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کو کاغذی کارروائی کی تکمیل کے لیے مدد فراہم کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
یہ سماجی بہبود کا مرکز سن 2005ء میں ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے مارٹن ہابیاگ نے قائم کیا تھا۔ انہیں بیلجیم میں انسانی بنیادیوں پر امداد کے شعبے میں کام کرنے کے بعد اس شعبے میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ایک انٹرویو میں ہابیاگ نے کہا، ’’ترک وطن میرے لیے ہمیشہ سے دلچسپی کی چیز تھی۔ میں خود بھی تارک وطن ہوں اور کئی نسلیں قبل میرا خاندان بھی یورپ سے ارجنٹائن ہجرت کر کے گیا تھا۔‘‘
مغربی معاشروں میں تارکین وطن کے حوالے سے بڑھتی ہوئی بداعتمادی کے تناظر میں ہابیاگ نے کہا کہ ایسی صورت حال میں تارکین وطن کو معاشرے میں مثبت انضمام کے ذریعے اچھا تاثر دینا چاہیے اور واضح کرنا چاہیے کہ تارکین وطن کسی معاشرے میں کتنے نئے رنگ پیدا کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنی عمر کی چوتھی دہائی میں اس ریستوران کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل وہ ایک مشاورتی کمپنی چلاتے تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ریستوران شروع کرنے کا خیال انہیں یوں آیا کیوں کہ ’کھانا لوگوں کو اکٹھا کرتا ہے‘۔
تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات چیت میں ہابیاگ کا کہنا تھا، ’’ریستوران میں کام کرنا، ہر وقت متحرک رہنے کے مترادف ہے اور یہ بہت آسانی سے لوگوں کو جمع کر دیتا ہے۔ کھانا سبھی کو اچھا لگتا ہے۔‘‘
دنیا میں غیر معمولی نظام الاوقات
شمالی کوریا نے اپنا معیاری وقت ایک مرتبہ پھر تبدیل کرتے ہوئے گھڑیوں پر سابقہ ٹائم بحال کر دیا ہے۔ اب دونوں کوریائی ملکوں کا معیاری وقت ایک ہے۔ تاہم ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے۔
سن 1949 میں چین میں اقتدار سنبھالنے والی کمیونسٹ پارٹی نے سارے ملک میں پائے جانے والے مختلف ٹائم زونز کو ختم کرتے ہوئے ایک معیاری وقت نافذ کر دیا تھا۔ بیجنگ عالمی معیاری وقت سے آٹھ گھنٹے آگے ہے۔ اب سارے چین میں یہی نظام رائج ہے۔ ایک ٹائم کے نفاذ کی وجہ سے اس ملک کے مختلف حصوں میں رہنے والے چینی باشندوں کو اپنے جسم کے اندر بھی نئے معیاری وقت کے مطابق تبدیلیاں لانی پڑی تھیں۔
تصویر: Reuters/China Daily
رات کے اُلُو
اسپین کے ڈکٹیٹر فرانسیسکو فرانکو نے سن 1840 میں اپنی غیرجانبداری کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے معیاری وقت کو سینٹرل یورپی ٹائم کے برابر کر دیا تھا۔ یہ وقت نازی جرمنی کے مساوی تھا۔ اس باعث اسپین میں سورج جلدی طلوع ہو جاتا ہے اور غروب بھی دیر سے ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
ماضی سے نجات
جزیرہ نما کوریا میں بھی معیاری وقت میں تبدیلی سامنے آئی ہے۔ سن 2015 میں انتہائی کشیدگی کے دور میں شمالی کوریا نے اپنے معیاری وقت کو جنوبی کوریا سے علیحدہ کر دیا تھا۔ شمالی کوریائی حکومت نے وقت کی تبدیلی کو جزیرہ نما کوریا میں جاپانی نوآبادیاتی دور کے وقت کو تبدیل کرتے ہوئے اُس عہد سے چھٹکارہ حاصل کرنا قرار دیا تھا۔ جاپان جزیرہ نما کوریا پر سن 1910 سے 1945 تک حاکم رہا تھا ۔
تصویر: picture-alliance/MAXPPP
مختلف ہونے کا احساس
نیپال بھی وقت کے حوالے سے قدرے غیرمعمولی ہے۔ یہ ملک اپنے ہمسائے بھارت سے پندرہ منٹ آگے ہے اور اس طرے عالمی معیاری وقت سے اس کا فرق پانچ گھنٹے پینتالیس منٹ ہے، جو حیرانی کا باعث ہے۔ نیپالی حکومت نے اپنے معیاری وقت کو بھارت سے پندرہ منٹ آگے کر کے جو فرق پیدا کیا ہے، اُس نے نیپالی عوام کو اپنا علیحدہ وقت رکھنے کا احساس دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/F. Neukirchen
بجلی بچاؤ، مستقبل کو بہتر کرو
وینزویلا کے صدر نکولاس مادُورو نے سن 2016 میں اپنے معیاری وقت کو تیس منٹ آگے کر دیا تھا۔ یہ ملک عالمی معیاری وقت سے چار گھنٹے پیچھے ہے۔ اس فیصلے سے مادورو نے اپنے پیشرو ہوگو چاویز کے سن 2007 کے فیصلے کو تبدیل کر دیا۔ مادورو نے يہ قدم بجلی بچانے کے مقصد سے اٹھايا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gutierrez
ایک طویل جست
وقت کے اعتبار سے سب سے بڑی جست بحر الکاہل کے ملک سموآ نے لگائی۔ سن 2011 میں سموآ نے معیاوی وقت میں ایک پورے دن کا فرق پیدا کر دیا۔ یہ پہلے سڈنی سے 21 گھنٹے پیچھے تھا اور پھر اس کے معیاری وقت کو سڈنی سے 3 گھنٹے آگے کر دیا گیا۔ انیسویں صدی میں سموآ کے بادشاہ نے امریکا سے وابستگی کے تحت معیاری وقت امریکا کے مساوی کر دیا تھا۔ اس تبديلی سے سموآ کے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
6 تصاویر1 | 6
ہر سال اس ریستوران سے 80 ’طلبہ‘ کوکنگ کورسز مکمل کرتے ہیں۔
سن 2004 سے اب تک یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد قریب اٹھارہ لاکھ ہے۔ سیاسی پناہ کی درخواستوں کے اعتبار سے یونان اور اٹلی سب سے آگے ہیں۔ اسپین میں ایسی درخواست گزاروں کی تعداد نسبتاﹰ کم ہے، تاہم عوامی سطح پر مہاجرین کے لیے قبولیت کے جذبات اسپین خصوصاﹰ کاتالونیا کے امیر خطے میں نہایت خوش آئند ہیں۔