ہسپانوی علاقے کاتالونیا کے دارالحکومت بارسلونا میں لاکھوں افراد نے ملک کو متحد رکھنے کے لیے ایک ریلی میں شرکت کی ہے۔ اس موقع پر مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ علیحدگی پسند رہنما کارلیس پوج ڈیمونٹ کو جیل میں ڈال دیا جائے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ کاتالونیا کے دارالحکومت بارسلونا میں انتیس اکتوبر بروز اتوار کو منعقد ہونے والی ایک ریلی میں تقریبا تین لاکھ افراد نے شرکت کی۔
کاتالونیا کی علاقائی حکومت کی طرف سے اسپین سے آزادی کے یک طرفہ اعلان کے بعد میڈرڈ حکومت نے اس ریجن کی نیم خودمختار حیثیت ختم کر دی تھی۔ اس پیشرفت کے نتیجے میں بارسلونا کے باسیوں نے علیحدگی پسند حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس ریلی کے منتظمین نے دعویٰ کیا ہے کہ اس احتجاجی مظاہرے میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد گیارہ لاکھ بنتی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ بارسلونا میں ان مظاہرین نے اسپین کے پرچم تھامے ہوئے تھے اور وہ ملکی اتحاد کے لیے نعرے بلند کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کاتالونیا اسپین کا حصہ ہی ہے۔ اس موقع پر کاتالونیا کے نمایاں سیاستدان اور یورپی پارلیمان کے سابق صدر جوزف بارول نے کہا کہ کاتالونیا کے سابق صدر پوج ڈیمونٹ اس ریجن کے تمام باشندوں کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں، اس لیے انہیں تمام کاتالونیا کے ایماء پر بولنے کا کوئی حق نہیں۔
کاتالونیا کی سابق حکومت کے مطابق یکم اکتوبر کو آزادی سے متعلق کرائے گئے ریفرنڈم میں اس علاقے کے 90 فیصد ووٹرز نے آزادی کی حمایت کی تھی۔ ان اعدادوشمار کے مطابق اسپین کی مرکزی حکومت کی طرف سے کالعدم قرار دیے جانے والے اس ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کی شرح 43 رہی تھی۔
اس ریفرنڈم کے نتیجے میں ایک سیاسی تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔ ہسپانوی وزیر اعظم نے خبردار کیا تھا کہ اگر کاتالونیا کی حکومت آزادی کے مطالبے کو واپس نہیں لیتی تو اس علاقے کو مرکزی حکومت کی عمل داری میں لے لیا جائے۔
تاہم پوج ڈیمونٹ نے ستائیس اکتوبر کو اسپین سے آزادی کا اعلان کر دیا، جس کے جواب میں میڈرڈ حکومت نے اس علاقے کی حکومت کو برطرف کرتے ہوئے اکیس دسمبر کو نئے الیکشن کرانے کا حکم جاری کر دیا۔ اس بحران کی شدت کے باعث اب پہلی مرتبہ باسلونا میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے علیحدگی پسند رہنماؤں کی مخالفت کی ہے۔
بارسلونا میں ایک انیس سالہ طالبہ ماریانا فرینینڈز نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا، ’’میں غصے میں ہوں کہ یہ لوگ میرے ملک کے ساتھ کیا کر رہے ہیں، جو میرے بزرگوں نے بنایا تھا۔‘‘
دوسری طرف علیحدگی پسند رہنما کارلیس پوج ڈیمونٹ نے عہد ظاہر کیا ہے کہ وہ آزادی کی خاطر اپنی جدوجہد کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ اسپین کے اس نیم خودمختار علاقے کے معزول صدر نے مزید کہا کہ کاتالونیا کے عوام پرامن احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ آرٹیکل 155 کی جمہوری مخالفت بھی جاری رکھیں گے۔ اسی آئینی آرٹیکل کے تحت اسپین کی مرکزی حکومت نے کاتالونیا کا براہ راست انتظام سنبھاتے ہوئے پوج ڈیمونٹ کی علیحدگی پسند حکومت کو برطرف کیا ہے۔
کاتالونیا کا متنازعہ ریفرنڈم اور پولیس ایکشن
میڈرڈ حکومت کی روانہ کردہ خصوصی پولیس نے کاتالونیا میں ہونے والے آزادی کے لیے ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کے عمل کو روکنے کی ہر ممکن طرح سے کوشش کی۔ اس دوران عوام اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں 38 زخمی ہوئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/D. Ramos
کاتالونیا کا ریفرنڈم اور پولیس
ہسپانوی علاقے کاتالونیا کے کئی علاقوں کے پولنگ اسٹیشنوں پر متعین پولیس اہلکاروں نے ووٹرز کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا سلسلہ صبح سے شروع کر دیا تھا۔ اس متنازعہ ریفرنڈم کو میڈرڈ حکومت پہلے ہی تسلیم کرنے سے انکار کر چکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Barrena
ووٹ ڈالنے کی کوششیں
کئی پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کے لیے ہر عمر کے لوگ پہنچنے کی کوشش کرتے رہے لیکن انہیں پولیس کے متعین دستے روکتے رہے۔ اس تصویر میں ایک بزرگ شہری کو پولیس نے روک رکھا ہے اور وہ اُن سے پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے کے لیے جرح کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/D. Ramos
پولیس پولنگ اسٹیشنوں میں زبردستی داخل ہوئی
مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر کاتالونیا کے کئی افراد ایک دن پہلے سے داخل ہو کر بیٹھ گئے تھے۔ ان افراد کو پولنگ اسٹیشنوں سے نکالنے کے احکامات میڈرڈ حکومت نے ہفتہ تیس اکتوبر کو جاری کیے تھے۔ ایسے پولنگ اسٹینوں میں پولیس زبردستی داخل ہوئی۔ ایک پولنگ اسٹیشن سے ایک شخص کو اٹھا کر باہر لایا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/D. Ramos
کاتالونیا کے ووٹرز
کاتالونیا کے متنازعہ آزادی ریفرنڈم کو ہسپانوی سپریم کورٹ نے بھی خلاف ضابطہ قرار دے رکھا ہے۔ میڈرڈ حکومت کے احکامات کے تناظر میں ایک پولنگ اسٹیشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے داخل ہونے والی خاتون کو پولیس پیچھے دھکیل رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Barrena
عوامی نعرے بازی
ریفرنڈم کے دن پولیس کی کارروائیوں کے دوران پرجوش ووٹرز نے پولیس اہلکاروں کے خلاف زوردار نعرے بازی بھی کی۔ کئی مقامات پر جھڑپوں کو بھی رپورٹ کیا گیا۔ پولیس کو ربڑ کی گولیاں بھی چلانا پڑیں۔ ایسے واقعات میں اڑتیس افراد زخمی ہوئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/D. Ramos
ڈالے گئے ووٹوں بھی اٹھا لیے گئے
مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر جتنے بھی ووٹ ڈالے گئے، اُن کو پولیس اہلکاروں نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس موقع پر ووٹ ڈالنے والے سامان کو بھی پولیس نے تھیلوں میں ڈال کر اپنے قبضے میں کر لیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Barrena
بیلٹ باکسز پر قبضہ
میڈرڈ حکومت کے حکم پر ریاستی اور خصوصی پولیس کے دستوں نے مختلف پولنگ اسٹیشنوں میں داخل ہو کر ووٹ ڈالنے والے صندوقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ پولیس دستے انہیں اٹھا کر لے بھی گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Barrena
ووٹرز اور پولیس گتھم گتھا
کاتالونیا کے آزادی کے ریفرنڈم کے موقع پر پولیس کو کئی جذباتی ووٹرز کا بھی سامنا رہا۔ ایسا ایک ووٹر اور پولیس اہلکار آپس میں دست و گریبان ہیں۔ دیگر پولیس اہلکار اس نوجوان کو پکڑنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/D. Ramos
کاتالونیا کے صدر بھی ووٹ نہ ڈال سکے
کاتالونیا کے صدر کارلیس پوج ڈی مونٹ کو بھی پولیس نے ووٹ ڈالنے سے روک دیا۔ اُن کے علاقے کے پولنگ اسٹیشن کو بھی پولیس نے اپنے کنٹرول میں لے کر بند کر دیا تھا۔ وہ سرخ گلاب کا پھول اپنے حامیوں کے لیے لہراتے ہوئے۔